“صدر ٹرمپ کا اسرائیل کو نظرانداز کرنا — مشرقِ وسطیٰ میں امریکی ترجیحات میں تبدیلی کا اشارہ؟”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ مشرقِ وسطیٰ کے دورے میں سعودی عرب، قطر، اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا، لیکن اسرائیل جانا گوارا نہ کیا—جو کہ امریکی سفارت کاری میں ایک غیر معمولی فیصلہ ہے۔
دورے کے دوران ٹرمپ نے اربوں ڈالر کے آرمز ڈیلز سائن کیں، حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے بعد ایک امریکی یرغمالی کی رہائی ممکن بنائی، شام پر پابندیاں ختم کرنے اور یمن میں حوثیوں کے خلاف حملے روکنے کا اعلان کیا۔
مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حماس نے غزہ پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے، جبکہ دوسری طرف ایران سے مذاکرات کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
یہ تمام اقدامات اسرائیل کے لیے تشویش کا باعث ہیں، کیونکہ اس بار مشرقِ وسطیٰ کی امریکی پالیسی میں اس کا مرکزی کردار کمزور پڑتا محسوس ہو رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ پالیسی شفٹ نہیں تو کم از کم ایک علاقائی توازن پیدا کرنے کی سنجیدہ کوشش ضرور ہے، جس میں امریکہ اب خلیجی اتحادیوں اور ایران و فلسطینی گروہوں کے درمیان سفارتی پل بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا یہ تبدیلی امریکی مفادات کی ازسرنو ترجیح بندی ہے یا صرف وقتی حکمت عملی؟ وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔