“جلاوطنی نہیں، زندگی کا سوال ہے”: افغان باشندوں کی جبری ملک بدری پر عالمی برادری کی تشویش

28 مئی کو ناروے سے جاری ایک اہم اعلامیے میں انسانی حقوق اور صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیموں نے پاکستان کی جانب سے افغان شہریوں کی جبری ملک بدری پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق، پاکستان میں مقیم ہزاروں افغان باشندوں، خاص طور پر وہ جو طالبان کے خلاف آزادی اظہار، انسانی حقوق، یا صحافتی خدمات سے وابستہ رہے ہیں، کو بے دخل کرنا اُنہیں براہِ راست خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

پس منظر:
2021 میں طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قبضے کے بعد لاکھوں افغان شہری، خصوصاً صحافی، سماجی کارکن، خواتین حقوق کی علمبردار، اور سابق حکومتی اہلکار پاکستان منتقل ہوئے۔ ان میں سے کئی کو عالمی اداروں نے “خطرے سے دوچار افراد” تسلیم کیا، مگر اب پاکستان میں حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث انہیں واپس بھیجا جا رہا ہے۔

عالمی تنظیموں کا موقف:
ناروے میں قائم فورم فار فریڈم، رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF)، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں نے کہا ہے کہ:

یہ افغان شہری اگر واپس بھیجے گئے تو طالبان حکومت انہیں قید، تشدد یا یہاں تک کہ موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔

جبری ملک بدری بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں، خاص طور پر نان-ریفولمنٹ (non-refoulement) کے اصول کی خلاف ورزی ہے، جس کے تحت کسی بھی پناہ گزین کو اس ملک واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں اس کی جان کو خطرہ ہو۔

پاکستان کا مؤقف:
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ صرف اُن افراد کو واپس بھیج رہے ہیں جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس عمل میں شفافیت کی کمی اور جلد بازی سے کئی ایسے افراد بھی متاثر ہو رہے ہیں جن کی زندگیاں واقعی خطرے میں ہیں۔

مطالبہ:
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ:

پاکستان ملک بدری کا عمل فوری طور پر روکے۔

خطرے سے دوچار افغان باشندوں کو اقوام متحدہ یا متعلقہ ممالک کے ذریعے پناہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

عالمی برادری، خصوصاً مغربی ممالک، ان افغان شہریوں کو دوبارہ آباد کاری کے لیے فوری اقدامات کرے۔

یہ مسئلہ انسانی حقوق کے عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑی آزمائش ہے، جہاں اختیار، قانون، اور انسانی ہمدردی کے تقاضوں میں توازن قائم کرنا ناگزیر ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں