“سپریم کورٹ میں دھواں دار سماعت — جسٹس مسرت ہلالی نے فیصلے کو آئین کی دوبارہ تحریر قرار دے دیا!”

سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کیس کی سماعت جاری ہے، جس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے اپنے دوٹوک ریمارکس سے عدالت میں ایک نئی بحث چھیڑ دی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا:

“فیصلے میں کہا گیا کہ ووٹ بنیادی حق ہے، حالانکہ ووٹ بنیادی حق نہیں ہے۔”

ان کے مطابق عدالت کا یہ کہنا کہ ووٹ دینا ایک بنیادی حق ہے، آئینی تشریح کی حدود سے تجاوز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ:

“تین دن کی مدت کو بڑھا کر پندرہ دن کرنا، آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔”

یاد رہے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق پہلے دیے گئے عدالتی فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ مخصوص نشستوں پر جماعتوں کو زیادہ وقت فراہم کرے، جس کے تحت تین دن کی مدت بڑھا کر پندرہ دن کر دی گئی تھی۔

جسٹس ہلالی کے مطابق عدالت قانون سازی نہیں کر سکتی، اور اس قسم کی توسیع آئینی دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

عدالتی مبصرین کا کہنا ہے کہ جسٹس مسرت ہلالی کے ان ریمارکس سے پہلے سے دیے گئے فیصلے کی قانونی حیثیت اور آئینی بنیادوں پر سوالات اٹھنے لگے ہیں، اور یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر نئی قانونی تشریح اور آئینی تجزیے کی جانب جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ کی اس اہم سماعت نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئندہ کے انتخابی عمل پر گہرے اثرات مرتب کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔
جسٹس ہلالی کے ریمارکس نے واضح کر دیا کہ عدالت آئینی حدود میں رہ کر ہی فیصلے کرے گی — اور اگر کوئی فیصلہ قانون سازی کی حدوں کو عبور کرے، تو وہ نظرثانی کے قابل ضرور ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں