غزہ میں 54 ہزار جانوں کے بعد امن کی امید، امریکا کی نئی تجویز پر اسرائیل کا ہاں اور حماس کا انتظار باقی۔

7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ ایک انسانی المیے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اب تک 54,000 سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھنے کے بعد امریکا نے جنگ بندی کی نئی تجویز پیش کی ہے، جس پر اسرائیل نے باقاعدہ دستخط کر دیے ہیں۔

امریکا کی نئی تجویز — امن کی جانب قدم؟
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے ایک اہم پریس بریفنگ میں بتایا کہ امریکی خصوصی مندوب برائے مشرق وسطیٰ، اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی تجویز کو اسرائیل نے قبول کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت:

60 دن کی سیز فائر کی تجویز دی گئی ہے۔

پہلے دن 5 اور 60 ویں دن مزید 5 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔

دو مراحل میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی متوقع ہے۔

جنگ بندی کے ساتھ ہی غیر مشروط انسانی امداد کا آغاز ہوگا۔

صدر ٹرمپ اس معاہدے کی ضمانت دیں گے اور اسرائیلی فوج کے جزوی انخلا کی نگرانی کریں گے۔

حماس کا محتاط رویہ
اگرچہ اسرائیل نے دستخط کر دیے ہیں، لیکن حماس کی جانب سے اب تک کوئی حتمی جواب نہیں دیا گیا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ حماس اس تجویز پر غور کر رہی ہے اور مذاکرات جاری ہیں۔ ان کا یہ مؤقف اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ وہ جلد بازی میں فیصلہ نہیں کریں گے، بلکہ زمینی حقائق اور شرائط کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔

علاقائی اور بین الاقوامی اثرات
اس ممکنہ جنگ بندی معاہدے کو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے ایک انسانی ریلیف سمجھا جا رہا ہے بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے کردار کو بھی ازسرِ نو متعین کیا جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی امن کوششیں ایک جانب روس-یوکرین امن مذاکرات کی کوششوں کے ساتھ جڑی نظر آتی ہیں، جو عالمی طاقتوں کی بدلتی ہوئی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

رکاوٹیں اور خدشات
یہ معاہدہ اگرچہ امید کی کرن ہے، لیکن اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں:

حماس اور اسرائیل کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج۔

ممکنہ زمینی حملوں کی دوبارہ شروعات جیسا کہ 18 مارچ کو اسرائیلی بمباری۔

سیاسی دباؤ اور داخلی مزاحمت — دونوں اطراف میں۔
اگر حماس اس معاہدے کو منظور کر لیتی ہے، تو یہ غزہ میں موجودہ تباہی کو روکنے اور مغویوں کی واپسی کے ساتھ انسانی امداد کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہو گی۔ تاہم، جب تک دونوں فریق تحریری طور پر تیار نہیں ہوتے، یہ تجویز صرف ایک ’’امید‘‘ ہی ہے — لیکن ایسی امید، جس کی آج غزہ کو اشد ضرورت ہے.

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں