بلوچستان کا خاموش کرب: جب لاشیں بھی تنازع بن جائیں

بلوچستان، جہاں دہائیوں سے ریاست پاکستان اور علیحدگی پسند مسلح تنظیموں کے درمیان ایک خونی تنازع جاری ہے، اب ایک اور المیے کا گواہ بن رہا ہے — ایسا المیہ جو انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ یہ مسئلہ ہے مارے جانے والوں کی لاشوں کا، جنہیں ان کے خاندانوں کے حوالے کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔
یہ کہانی صرف ایک جھڑپ یا ایک واقعے کی نہیں، بلکہ عزت، شناخت، اور انصاف کی ایک بنیادی انسانی جدوجہد کی ہے۔
⚰️ تین لاشیں، چھ قبریں
بلوچستان کے ضلع کیچ میں واقع تربت شہر کے قریب، ایک قبرستان میں تین قبریں موجود ہیں — جن میں وہ افراد دفن ہیں جنہیں ریاست نے “شدت پسند جنگجو” قرار دے کر سپردِ خاک کر دیا۔ لیکن اسی مقام پر ان افراد کے اہلِ خانہ نے تین اور قبریں بنائی ہیں — علامتی قبریں — جن کے اندر کوئی لاش نہیں، صرف یاد، احتجاج، اور دکھ دفن ہیں۔
یہ وہ لاشیں ہیں جو 29 اپریل کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوئیں، اور 17 مئی کو مبینہ طور پر ریاستی اداروں نے کیمپ کے ساتھ واقع قبرستان میں خاموشی سے دفنا دیا۔ 18 مئی کو جب لواحقین ان کی میت لینے پہنچے، تو انہیں لوٹا دیا گیا۔
🧕 ’وہ جو بھی تھا، اب ختم ہو گیا… بس لاش دے دیں‘
ایک مقتول کی بہن نے بی بی سی کو بتایا کہ ہاں، اس کا بھائی ایک مسلح تنظیم کا حصہ تھا۔ لیکن وہ سوال کرتی ہے:
“وہ جو بھی تھا، اب ختم ہو گیا، ہمیں بس لاش دے دیں۔”
یہ ایک بہن کی فریاد ہے، جس میں سیاسی نظریہ نہیں، صرف انسانی رشتہ بول رہا ہے۔
🛑 ریاستی موقف اور انسانی تقاضے
ریاستی ادارے مؤقف رکھتے ہیں کہ ایسے شدت پسند عناصر کی لاشیں اگر ان کے خاندانوں کو دی جائیں تو ان کی تدفین جلسوں میں تبدیل ہو سکتی ہے، جو دہشتگردوں کو شہید اور ہیرو بنانے کی فضا پیدا کرے گی۔
لیکن سوال یہ ہے:
کیا قومی سلامتی کی حکمت عملی انسانی جذبات اور مذہبی رسومات کو روند کر مکمل ہو سکتی ہے؟
کیا کسی لاش کی واپسی سے سیکیورٹی کو اتنا خطرہ ہے کہ اسے ایک ماں، ایک بہن یا باپ کے حوالے کرنا بھی ریاست کے لیے ناقابل قبول ہو جائے؟
🧩 تنازع کا نیا چہرہ: لاشوں کی سیاست
یہ مسئلہ اب صرف بغاوت یا ریاستی عملداری کا نہیں رہا، بلکہ یہ لاشوں کی سیاست کا ایک الم ناک باب ہے، جہاں:
ایک طرف ریاست کے پاس طاقت ہے، قانون ہے، بندوق ہے؛
اور دوسری طرف رشتہ داروں کے پاس بس ایک سوال ہے:
“ہمیں اپنے پیارے کی لاش کیوں نہیں مل سکتی؟”
اخلاقی اور قانونی زاویے
اسلامی تعلیمات میت کی عزت، غسل، کفن، جنازہ اور تدفین کو خاندان کی ذمہ داری قرار دیتی ہیں۔
پاکستانی قانون بھی کسی مجرم کو اس کی موت کے بعد بنیادی انسانی حق سے محروم نہیں کرتا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اس عمل کو ماورائے عدالت سزا، اور اجتماعی سزا سے تعبیر کرتی ہیں۔
نتیجہ: ایک گہرا انسانی سوال
بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہو سکتا ہے، سیکیورٹی پر مبنی ہو سکتا ہے، لیکن لاشوں کا سوال صرف انسانی ہے۔
اگر ہم انکار کر دیتے ہیں کہ مرنے والوں کو دفن کرنا ان کے خاندانوں کا حق ہے، تو ہم خود بھی اس انسانیت سے دور ہوتے جا رہے ہیں، جس کی بنیاد پر ریاستیں، مذاہب اور معاشرے قائم ہوتے ہیں۔
“کسی کا بیٹا ہو، بھائی ہو یا باپ — وہ اگر زندہ نہ رہا، تو کم از کم مرنے کے بعد اسے دفن کرنے کا حق تو دیا جائے!”