کیچ میں اسسٹنٹ کمشنر کا اغوا: بلوچستان میں بدامنی کی نئی لہر؟

بلوچستان کے ضلع کیچ میں بدھ کی صبح ایک **تشویش ناک واقعہ** پیش آیا، جب ایران سرحد سے متصل علاقے سے **اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی** کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کر لیا۔ اس واقعے نے نہ صرف بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، بلکہ ریاستی رٹ اور سرحدی اضلاع میں حکومتی عملداری پر بھی سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔

ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی بدھ کی صبح کوئٹہ جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ، ایک محافظ اور ڈرائیور بھی موجود تھے۔ جب وہ تربت سے تقریباً 40 کلومیٹر دور **تگران آباد (سرینکن کے قریب)** پہنچے تو **چھ سے زائد مسلح افراد نے ان کی گاڑی کو روکا**، دیگر افراد کو اتار کر **محمد حنیف نورزئی کو گاڑی سمیت اغوا کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے**۔

ضلعی حکام اور سکیورٹی اداروں نے فوری طور پر **سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے**۔ تاہم مغوی اسسٹنٹ کمشنر کی موجودہ صورتحال یا ممکنہ مقام کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔

## 🧭 **کیچ: ایک شورش زدہ خطہ**

کیچ نہ صرف ایران کی سرحد سے جڑا ہوا ہے بلکہ یہ بلوچستان کے سب سے زیادہ شورش زدہ اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں **کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF)** اور **بلوچ لبریشن آرمی (BLA)** جیسی مسلح تنظیمیں فعال ہیں، جو ماضی میں بھی کئی ریاستی اہلکاروں کو نشانہ بنا چکی ہیں۔

* **2014** میں بھی کیچ سے ڈپٹی کمشنر سمیت پانچ سرکاری افسران کو اغوا کیا گیا تھا۔
* **گزشتہ ہفتے** ضلع سوراب میں BLA کے حملے میں **ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہدایت اللہ بلیدی شہید ہوئے**۔

ان واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بلوچستان میں **ریاستی اہلکاروں کا ٹارگٹ کلنگ یا اغوا** اب ایک بار پھر شدت اختیار کر رہا ہے۔

## 🛡️ **ریاستی چیلنجز اور پالیسی ناکامی؟**

یہ واقعہ بلوچستان میں **ریاستی حکمتِ عملی کی ناکامی** کا آئینہ ہے:

* کیا ریاست ان شورش زدہ علاقوں میں اپنے نمائندوں کو تحفظ نہیں دے سکتی؟
* کیا سرحدی اضلاع میں حکومت کی رٹ صرف دفتر کے کمرے تک محدود ہے؟
* اگر ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو دن دہاڑے اغوا کیا جا سکتا ہے، تو عام شہری کس تحفظ کی امید رکھے؟

## 📍 **سیاسی و سیکیورٹی مضمرات**

اس واقعے کے **سیاسی اور سیکیورٹی اثرات** بہت گہرے ہو سکتے ہیں:

1. **ریاستی اہلکاروں میں خوف اور بے یقینی بڑھے گی۔**
2. **بلوچستان میں مرکز کے خلاف جذبات کو مزید ایندھن ملے گا۔**
3. **اغوا کاروں کی ہمدردی حاصل کرنے والے بیانیے کو تقویت ملے گی۔**

یہ صورت حال نہ صرف **سول بیوروکریسی کے اعتماد** کو کمزور کرتی ہے بلکہ **ریاستی نظام کو گہرے زخم** دیتی ہے۔

## 📢 **ضرورت ہے ٹھوس اور شفاف حکمت عملی کی**

اگر بلوچستان میں ریاستی ادارے واقعی امن چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ:

* **مقامی حکومتوں کو بااختیار بنایا جائے۔**
* **سیکیورٹی اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کو موثر بنایا جائے۔**
* **شورش زدہ علاقوں میں اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں۔**
* **اغوا کے ہر واقعے پر فوری اور شفاف ردعمل دیا جائے۔**

اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی کا اغوا صرف ایک واقعہ نہیں، یہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور ریاستی عملداری پر بڑھتے ہوئے سوالات کا استعارہ ہے۔ اب فیصلہ ریاست کو کرنا ہے — *کیا وہ صرف ردعمل دے گی یا پیش بندی کا لائحہ عمل اپنائے گی؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں