“آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ووٹنگ—غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل فائر بندی کی امید!”

آج بدھ، 4 جون 2025 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایک تاریخی لمحے کی گواہ بننے جا رہی ہے۔ کونسل اراکین غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل فائر بندی کے مطالبے پر مبنی ایک نئی قرارداد پر ووٹنگ کریں گے، جس کا مقصد علاقے میں جاری خونریزی روکنا اور انسانی بحران کا خاتمہ ہے۔

۱. پسِ منظر
غزہ تنازعہ: گزشتہ کئی ماہ سے غزہ میں عسکری کارروائیوں نے زمینی اور فضائی حملوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ دونوں فریقوں نے سخت لڑائی جاری رکھی ہوئی ہے، جس کے باعث ہزاروں معصوم شہری شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔

سفارتی کوششیں: بین الاقوامی برادری نے مختلف سطحوں پر کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کیں—متعدد ملکوں نے ثالثی کے لیے رابطے کیے، مگر زمینی صورتحال مسلسل کشیدہ رہی۔

۲. قرارداد کی اہم شقیں
فوری اور غیر مشروط فائر بندی:

جنگجو فریقین سے مطالبہ کہ وہ فوراً جنگ بندی کا اعلان کریں، کوئی شرائط عائد کیے بغیر۔

یہ شق ہر قسم کے ہدفی حملوں کے خاتمے کی ضمانت دے گی تاکہ شہری آبادی کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔

مستقل امن عمل کا آغاز:

تنازعے کا حل صرف مختصر جنگ بندی سے ممکن نہیں، اس لیے قرارداد میں خطے میں ایک جامع اور دیرپا امن مذاکرات کا راستہ کھولنے کی تجویز ہے۔

اہلِ مغربیت اور عربی ممالک کے نمائندے امن مذاکرات میں شریک ہوں گے اور مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل نکالنے کی کوشیش کریں گے۔

انسانی امداد کی فراہمی:

غزہ میں پھنسے خاندانوں تک خوراک، دوائیں اور دیگر ضروری امدادی سامان فوری پہنچانے کا منصوبہ۔

اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں کو محفوظ رسائی فراہم کرنے کے لیے متعلقہ فریقین سے تعاون درکار ہوگا۔

۳. ممکنہ اثرات
علاقائی استحکام: اگر قرارداد منظور ہو گئی، تو خطے میں ایک قلیل مدتی سکون پیدا ہو سکتا ہے، جس سے انسانیت کو سانس لینے کا موقع ملے گا۔

سفارتی پیش رفت: یہ اقدام ظاہر کرے گا کہ بین الاقوامی برادری بھاری محاصرہ کے باوجود کشیدگی ختم کروانے پر متفق ہے۔ مستقل جنگ بندی مستقبل میں ایک دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

انسداد انسانی بحران: انسانی امداد کو بلا روک ٹوک غزہ تک پہنچائے جانے سے طبی اور غذائی سہولیات میں کمی کا بحران کم ہوگا، بچے اور بزرگ خطرناک صورتحال سے نجات حاصل کریں گے۔

۴. رائے عامہ اور رکن ممالک کا رویہ
متحدہ عرب امارات، مصر اور جاپان نے قرارداد کے مسودے کی حمایت کی ہے اور زور دیا ہے کہ امن کے لیے فوری ایکشن ضروری ہے۔

امریکا اور بعض یورپی ملک ممکنہ ترامیم کے حق میں ہیں، تاکہ فائر بندی کے ساتھ ساتھ قائم کیے جانے والے امن مذاکرات میں شفافیت اور نگرانی کو بھی شامل کیا جائے۔

اسرائیل نے اب تک احتجاجی انداز اپنایا ہے اور مؤقف دیا ہے کہ حماس کو جنگ بندی کے لیے رضامند کرنا سب سے پہلے شرط ہے۔ تاہم، عالمی دباؤ بڑھنے سے امکان ہے کہ کچھ شرائط پر تنازل بھی کرے۔

۵. کونسی صورتِ حال ابھری تو قرارداد ناکام سمجھی جائے گی؟
اگر ووٹنگ میں ۵ میں سے کم از کم ۳ ووٹ معاون نہ ملے یا کسی مستقل رکن نے ویٹو کر دیا، تو قرارداد منظور نہیں ہوگی۔

منظوری کے با وجود عملی عمل درآمد میں تعطل آنا، جیسے کہ حملوں کا فوری روکا نہ جانا یا امدادی راہوں کی بندش، کو کامیابی نہیں کہا جائے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں