“اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کے لیے تاریخی قرارداد — لیکن امریکہ نے ویٹو لگا کر امن کی امیدوں کو مات دے دی!”

4 جون 2025 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی کے مطالبے پر مبنی قرارداد پیش کی گئی، جسے سلامتی کونسل کے 15 اراکین میں سے 14 نے منظور کر لیا۔ یہ قرارداد غزہ کے انسانی بحران کو “تباہ کن” قرار دیتی ہے اور اسرائیل سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ انسانی امداد کی ترسیل پر عائد تمام پابندیاں فوری طور پر ختم کرے۔ ساتھ ہی، قرارداد میں حماس اور دیگر گروہوں سے تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی کا بھی مطالبہ شامل تھا۔

لیکن امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا، جس سے اس کی منظوری رک گئی۔ امریکی قائم مقام سفیر ڈوروتھی شییا نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد حماس کی مذمت نہیں کرتی اور نہ ہی اس سے حماس کے ہتھیار ڈالنے یا غزہ سے انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ قرارداد اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور حماس کو تقویت دے سکتی ہے۔

پاکستان کے اقوام متحدہ میں سفیر عاصم احمد نے امریکی ویٹو پر سخت تنقید کی اور کہا:
“یہ نہ صرف سلامتی کونسل کے ضمیر پر ایک اخلاقی داغ ہے بلکہ ایک ایسا لمحہ ہے جو نسلوں تک سیاسی اثرات مرتب کرے گا۔”

چین کے سفیر فو کانگ نے بھی امریکی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جاری تنازعے کو روکنے میں سلامتی کونسل کی ناکامی کی بنیادی وجہ امریکہ کی رکاوٹیں ہیں۔

اسی دوران غزہ میں انسانی صورتحال بہت خراب ہوتی جا رہی ہے۔ امدادی مراکز کے قریب خوراک کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے افراد پر فائرنگ کے واقعات میں تین دنوں میں 50 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان واقعات کے بعد غزہ ہیومینیٹرین فنڈ نے امدادی مراکز کو عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے “مشکوک افراد” پر فائرنگ کی جو مقررہ راستوں سے ہٹ کر آ رہے تھے، جبکہ فلسطینی ذرائع کا الزام ہے کہ یہ حملے جان بوجھ کر کیے گئے اور امدادی مراکز کے قریب شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر ڈینی ڈینن نے قرارداد کو “حماس کے لیے تحفہ” قرار دیا اور امریکہ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے “صحیح سمت میں کھڑے ہو کر” قرارداد کو ویٹو کیا۔

امریکی ویٹو کے بعد فلسطینی نمائندے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسی نوعیت کی قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں ویٹو کا حق نہیں ہوتا۔ اگرچہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں قانونی پابند نہیں ہوتیں، لیکن عالمی رائے عامہ کے اظہار کے طور پر ان کی اہمیت ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ کے لیے انسانی بحران ختم کرنے کی کوششیں امریکہ کے ویٹو کی دیوار سے ٹکرا گئیں، لیکن فلسطینی عوام کی حمایت میں عالمی سطح پر آواز بلند ہوتی رہی۔ اب توجہ جنرل اسمبلی کی قرارداد پر ہے، جو عالمی برادری کی حقیقی ترجمانی کر سکتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں