“عرفات کی روحانی برکت کے بعد، اذانِ مغرب کے فوراً بعد حجاج کا سفر مزدلفہ کی طرف شروع ہوتا ہے—یہ ہے حج کا ایک اور اہم مرحلہ!”

عرفات کا دن حج کا سب سے اہم اور روحانی نقطۂ عروج ہے، جہاں حاجی دن بھر کھڑے رہ کر دعا، تسبیح اور توبہ میں مصروف رہتے ہیں۔ لیکن جب اذانِ مغرب کی صدا گونجتی ہے، تو عرفات میں قیام کا اختتام ہوتا ہے اور ہزاروں حجاج کرام مزدلفہ کی طرف رختِ سفر باندھ لیتے ہیں۔ یہ سفر وقتًا فوقتًا تنظیم اور روانگی کی انفرادی منصوبہ بندی پر منحصر ہوتا ہے، لیکن عمومی طور پر درجِ ذیل ترتیب اختیار کی جاتی ہے:

اذانِ مغرب کے بعد روایتی دعا اور نماز:

جیسے ہی اذانِ مغرب ہوتی ہے، حاجی مقامِ عرفات (عموماً مسجدِ نمرہ کے قریب) میں جمع ہو کر مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں۔

اس کے بعد قصر (مختصر) انداز میں عشاء کی نماز بھی پڑھ لی جاتی ہے، کیونکہ عرفات سے مزدلفہ تک کا سفر رات کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔

سفر کی تیاری:

حاجی پیدل یا بسوں کے ذریعے حرکت کرتے ہیں۔ پیدل سفر کرنے والے اپنے لیے چھتری یا شیڈ کا بندوبست کر لیتے ہیں تاکہ راستے میں ہوا یا خنکی سے تحفظ مل سکے۔

بسوں کے ذریعے جانے والے گروپ منظم انداز میں روانہ ہوتے ہیں تا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ تعداد کو منتقل کیا جا سکے۔

سفر کی طوالت اور مسافت:

عرفات سے مزدلفہ کی دوری تقریباً 10 سے 12 کلومیٹر ہے، جو چند گھنٹے میں طے کی جاتی ہے۔ چونکہ یہ سفر رات میں ہوتا ہے، اس لیے موسم نسبتاً خوشگوار ہوتا ہے۔

پیدل چلنے والے حجاج کے لیے اس راستے میں وقفے وقفے سے پانی اور سادہ کھانے کا انتظام ہوتا ہے تاکہ طویل مشقت برداشت کرنا آسان ہو۔

مزدلفہ میں قیام کا مقصد:

مزدلفہ عرفات اور منیٰ کے درمیانی مقام پر واقع ہے۔ یہاں پہنچ کر حاجی جہنم والڈالے (مغرب و عشاء کی مشترکہ نماز) ادا کرتے ہیں—جو کہ ایک خاص عمل حج کا حصہ ہے۔

مزدلفہ میں حاجیوں کا جمع ہونا اس لیے ضروری ہے کہ یہاں سے جمرات (شیطان پر پتھر پھینکنے کے لیے کنکریاں) اکٹھی کی جاتی ہیں۔

رات بھر تسبیح و تلاوتِ قرآن اور دعا میں گزارنا بھی سنتِ ابراہیمی کے مطابق ہے۔

روحانی اور عرفانی پہلو:

عرفات میں دن بھر خشوع و خضوع کے بعد، جب حجاج اذانِ مغرب کے بعد چل پڑتے ہیں، تو یہ سمبلک طور پر ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے——جہاں انسان عرفانِ ربوبیت سے واپس زمین پر آتا ہے اور دکھتا ہوا مسافر بنتا ہے۔

مزدلفہ میں رات گزاریے کا مقصد خود احتسابی اور مزید بندگی میں محو رہنا ہے تاکہ اگلے دن منیٰ میں رمیِ جمرات کا عمل بھرپور عقیدت کے ساتھ ادا کیا جا سکے۔

🌙 مزدلفہ میں مخصوص اعمال اور تیاری
مغرب و عشاء کی نماز:
عرفات سے روانگی کے فوراً بعد حجاج مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں جمح اور قصر کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ مزدلفہ میں اذانِ عشاء کے بعد قیام ہوتا ہے، اور یہاں رات بھر قیام سنت ہے۔

جمرات کے لیے کنکریاں جمع کرنا:
رات گئے تک ایک ساتھ رہتے ہوئے حاجی چٹانی میدان سے مربوط کنکریاں اٹھاتے ہیں۔ یہ کنکریاں منیٰ پہن کر جمرات (العقبہ، وسطیٰ اور صغرى) پر پھینکی جاتی ہیں تاکہ شیطان کی رمی کا عمل پورا ہو سکے۔

دعائے دہرہ:
مزدلفہ میں رات گزارنے کے دوران حاجی دہرہ دعا بھی پڑھتے ہیں، جس میں بخشش اور مغفرت کی امید کی جاتی ہے۔ یہ لمحات روحانی مسرت اور گذشتہ اعمال کے لیے توبہ کا حسین امتزاج ہوتے ہیں۔

صبح کا فجر اور روانگی:
فجر کے بعد حاجی فجر کی نماز ادا کر کے منیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں جہاں رمیِ جمرات کا اہم مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اس سفر میں ضابطے کے مطابق نظم و ضبط برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ہر حاجی بروقت اپنی نیت کے مطابق عمل ادا کر سکے۔
عرفات سے مزدلفہ تک کا یہ سفر صرف جسمانی مسافت نہیں بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی تربیت ہے۔ اذانِ مغرب کے بعد کا موسم، رات کی خاموشی اور کنکریاں اٹھانے کا عمل—یہ سب حصے ایمان، صبر اور جذبۂ قربانی کو تقویت دیتے ہیں۔ عید قربان کے بعد منیٰ میں رمیِ جمرات کے لیے کنکریاں ساتھ لے جانا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہر حاجی نے اپنی روحانی صفائی کے بعد اب اختیار اور اقدام کی سمت میں قدم رکھا ہے۔

اس سفر کا ہر لمحہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ عبادت صرف مخصوص اوقات کا نام نہیں بلکہ زندگی کے ہر مرحلے میں حوصلہ اور استقامت کا درس ہے۔ اسی درس کے ساتھ حجاج سدا اپنے سفر کو جاری رکھتے ہیں، چاہے وہ مکہ مکرمہ کے مقامات ہوں یا زندگی کی راہوں میں آزمائشیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں