آئندہ بجٹ میں حکومت نے کسانوں کو اعلیٰ معیاری بیج فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ اور خوراک کے بحران کا مقابلہ کیا جا سکے۔

گذشتہ چند برسوں میں فصلوں کی پیداوار میں استحکام نہ ہونے اور موسمیاتی تغیر کے اثرات کے باعث کسان سخت مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں خوراک کی طلب بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ بیج کے ناقص معیار نے فصلوں کی پیداوار میں کمی اور تجارتی نقصانات کو جنم دیا۔ ایسے میں حکومت نے زرعی شعبے میں اصلاحات کا عندیہ دیا اور آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں کسانوں کو اعلیٰ معیاری بیج بلا معاوضہ یا سبسڈی پر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

منصوبہ بندی اور اہداف
اعلیٰ معیاری بیج کہاں سے حاصل کیے جائیں گے؟

وزارتِ موسمیاتی تبدیلی اور وزارتِ خوراک نے مشترکہ طور پر تحقیقی اداروں (جیسا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن جینیومکس اینڈ بائیوٹیکنالوجی) سے معیاری بیج خریدنے کے معاہدے کیے ہیں۔

فصلوں کی مقامی اور بین الاقوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم، چاول، کپاس، کارن اور دالوں کے لیے خصوصی ہائبرڈ بیج تیار کیا گیا ہے۔

مدد و تعاون کا طریقہ کار:

وفاقی حکومت صوبائی زرعی محکموں کو فنڈز اور تکنیکی معاونت فراہم کرے گی، تاکہ ہر ضلع کی زرعی یونیورسٹی یا فارم ڈیولپمنٹ سنٹر بیج کی تقسیم کا عمل منظم طور پر انجام دے سکے۔

کسان یونینز اور فارمر سوسائٹیز کو بھی تربیت فراہم کی جائے گی کہ بیج کو مناسب طریقے سے ذخیرہ، جانچ اور بونا کیسے ہے تاکہ فصل کی زیادہ سے زیادہ پیداوار ہو۔

بجٹ میں مختص رقم:

آئندہ بجٹ میں تقریباً ۵۰۰ ارب روپے کا ایک الگ زرعی پیکیج رکھا گیا ہے، جس میں ۱۵۰ ارب روپے صرف اعلیٰ معیاری بیج کی خریداری اور تقسیم پر مختص ہوں گے۔

اس کے علاوہ ۵۰ ارب روپے تحقیق و ترقی اور بیج لیبارٹریوں کی جدید کاری کے لیے رکھے گئے ہیں تاکہ مستقل بنیادوں پر نئی جینیاتی اقسام متعارف کروائی جا سکیں۔

عمل درآمد کا شیڈول
جون سے ستمبر ۲۰۲۵:

ترجیحی بنیادوں پر زرعی جامعات میں بیج کے بیچوں بیچ کوالٹی کنٹرول ٹیسٹنگ شروع کی جائے گی۔

کسانوں کو بیج حاصل کرنے کے لیے فارم بھرتے ہوئے اہلیت جانچنا ہوگی، تاکہ محدود وسائل کا فائدہ واقعی ضرورت مندوں تک پہنچے۔

اکتوبر سے دسمبر ۲۰۲۵:

سردی کی مناسب فصلوں کے لیے گندم اور دالوں کے معیاری بیج تقسیم کیے جائیں گے۔

ہر ضلع میں ایک مخصوص بیج ڈسٹری بیوشن سنٹر قائم کیا جائے گا، جہاں کسان کراچی، لاہور، پشاور یا ملتان کے زرعی اسٹیشن سے آرڈرز کے مطابق بیج لے سکیں گے۔

جنوری سے مارچ ۲۰۲۶:

گرما کی فصلوں (جیسے کپاس، چاول، مکئی) کے لیے بحالی اور مارکیٹنگ پلان ترتیب دیا جائے گا، تاکہ کسانوں کو کاروباری منافع بھی یقینی ہو۔

زرعی ماہرین کسانوں کو تربیت اور آگاہی کیمپوں کے ذریعے سکھائیں گے کہ نئے بیج کی خصوصیات کس طرح زمین کی قسم اور موسمی حالات کے مطابق منتخب کریں۔

فوائد اور ممکنہ اثرات
پیداواری اضافہ:

اعلیٰ معیاری بیج زیادہ قوتِ حیاتی اور مختصر مدت میں زیادہ اجناس دینے کی توانائی رکھتے ہیں۔ اس سے گندم کی ییلڈ فی ایکڑ ۲۰٪ تک بڑھ سکتی ہے، جبکہ کپاس اور دالوں میں بھی کم از کم ۱۵ فیصد بہتری متوقع ہے۔

اس سے خوراک کی کمی کو کم کرنے اور غذائی تحفظ کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔

معاشی خوشحالی:

کسان جب زیادہ فصل حاصل کریں گے تو مارکیٹ میں فروخت بڑھنے سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔

زیادہ پیداوار کی وجہ سے زرعی اجناس کی قیمتوں میں استحکام آئے گا اور ملکی زرمبادلہ کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

تحقیق و ترقی:

جدید بیج لیبارٹریوں کے ذریعے مستقل بنیادوں پر موسمیاتی تغیر اور فصلوں کی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے نئی اقسام متعارف کروائی جائیں گی۔

نوجوان محققین اور زرعی ماہرین کو ملازمتوں کے مواقع ملیں گے، جس سے زرعی شعبے میں انسانی وسائل کو بھی تقویت ملے گی۔

مقامی اشتغال:

بیج تقسیم مراکز اور فارم لیبارٹریوں کی مرمت و تعمیر میں مقامی ٹھیکیداروں اور مزدوروں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔

کسانوں کے لیے ٹریننگ پروگرامز اور ورکشاپس کا سلسلہ شروع ہوگا، جس سے زرعی تعلیم اور شعور میں اضافہ ہوگا۔

چیلنجز اور تجاویز
غیر معیاری بیج کی روک تھام:

ممنوعہ یا نقلی بیج کی مارکیٹ میں بھرمار کو روکنے کے لیے زائد از ضرورت کریک ڈاؤن کرنے کی ضرورت ہے۔

ضلعی انتظامیہ کو خصوصی ٹیمیں بنا کر بیج کے ریگولیٹری اقدامات پر عمل درآمد کرنا ہوگا، تاکہ نقلی بیج کی فروخت ختم ہو۔

لاجسٹک اور ترسیلی مشکلات:

کسی بھی دیہی علاقے تک اعلیٰ معیار کے بیج پہنچانے کے لیے سرد چین (Cold Chain) اور ذخیرہ اندوزی کی سہولت درکار ہے۔

اس لیے ہر تحصیل سطح پر کم از کم ایک بیج گودام جدید کولنگ سسٹم کے ساتھ بنایا جائے، تاکہ بیج خراب نہ ہو۔

کسانوں میں شعور بیداری:

کئی بار کسان روایتی بیج استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور نئے ہائبرڈ بیج کو قبول نہیں کرتے۔

اس کے لیے میڈیا اور زرعی یونیورسٹیز کو مشترکہ مہم چلانی ہوگی، جس سے بیج کے فوائد، استعمال کا صحیح طریقہ اور لاگت و منافع کا موازنہ پیش کیا جائے۔

مالی شمولیت اور قرضوں کی دستیابی:

بعض غریب کسان بیج خریدنے کے لیے فوری نقد رقم نہیں رکھتے۔ حکومت کو کسان پیکیج کے تحت بہتر شہودی قرضے فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

زراعتی بینک یا مخیر حضرات کے تعاون سے “بیج قرض پیکج” بنایا جائے، جس میں کسان فصل کی منافع بخشیت کی بدولت آسان اقساط میں رقم واپس کر سکیں۔
آئندہ بجٹ میں اعلیٰ معیاری بیج فراہم کرنا ایک اہم قدم ہے جو پاکستان کے زرعی شعبے کو نئی جہت دے گا۔ اس کے تحت حکومتی فنڈنگ، تحقیق و ترقی، لاجسٹک سہولیات اور کسانوں کی تربیت کے پروگراموں کے ذریعے نہ صرف پیداوار میں نمایاں اضافہ ممکن ہوگا بلکہ قوتِ خرید اور غذائی تحفظ کی سمت بھی مضبوطی آئے گی۔ جہاں ایک طرف بیج کی قیمتوں میں سبسڈی یا گرانٹ کسانوں کے لیے آسانی فراہم کرے گی، وہیں غیر معیاری و نقلی بیج کے استعمال کو روکنا حکومت کی اولین ترجیح ہوگی۔ اگر عملی طور پر یہ منصوبہ مؤثر انداز میں نافذ ہو جائے تو پاکستان زرعی پیداوار کے لحاظ سے خود کفیل ہونے کے قریب پہنچ سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں