“برطانیہ اور پانچ مغربی ممالک نے اسرائیلی وزرا کے اثاثے منجمد اور ویزے منسوخ کر دیے!”

برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی نیشنل سکیورٹی منسٹر اور فنانس منسٹر کے بیرونِ ملک جائیداد اور بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیں گے اور انہیں اپنے ممالک کا ویزا بھی جاری نہیں کریں گے۔ یہ قدم خاص طور پر اس لیے اٹھایا گیا کہ ان وزرا کے خلاف شواہد موجود ہیں کہ وہ متنازعہ بسطِ اِمتداد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں براہِ راست ملوث رہے ہیں۔
ان وزرا کے خلاف اثاثے منجمد کرنے کا عمل اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ مغربی حکومتیں اب انتہا پسند پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو عالمی تنہائی کے ذریعے چُھوٹ نہیں دیں گی۔ ڈپلومیٹ ذرائع کے مطابق ان وزرا کا نام ایک ایسے مشترکہ “کالی فہرست” میں شامل کیا گیا ہے جس میں ان رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے جن کے اقدامات خطے میں تشدد کے نئے دور کا سبب بن سکتے ہیں۔
تمام پابندیاں ذاتی نوعیت کی ہیں اور ان کا مقصد وزرا کے سرکاری معاملات پر گیر اثر ڈالنا نہیں، بلکہ انہیں اور اُن کے کاروباری شراکت داروں کو بیرونِ ملک مالیاتی لین دین سے روکنا ہے۔ ضابطے کے تحت ان افراد کے جائیداد کے کاغذات ضبط کیے جائیں گے اور بین الاقوامی بینکنگ چینلز میں کسی بھی نئی مالی سرگرمی کی اجازت نہیں ہوگی۔
مغربی دارالحکومتوں میں اس فیصلے کو باضابطہ طور پر “امن کے امکانات کو بچانے” اور “انتہا پسندی کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانے” کی کوشش قرار دیا گیا۔ سفارتی حلقوں میں یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ جب کسی ملک کے اندرونِ خانہ وزیرِ اعظم یا وزراء پر عالمی پابندیاں عائد ہوں تو اس سے نہ صرف متعلقہ رہنما محدود ہوتے ہیں بلکہ حکومتی پالیسی پر بھی دباؤ بڑھتا ہے۔
اسرائیلی اشرافیہ نے ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا، مگر مقامی ذرائع ابلاغ کا ماننا ہے کہ وزیرِ خارجہ گیدئون سار اس اقدام کو بین الاقوامی قرار دادوں کی خلاف ورزی اور خارجہ مداخلت قرار دیں گے۔ اسرائیلی کابینہ میں زیرِ بحث یہ بھی ہے کہ آیا اس کے جواب میں مزید سفارتی ہچکچاہٹ برتی جائے یا کاؤنٹر میجرز کے تحت مغربی وزرا کے خلاف بھی اسی نوعیت کا اقدام اٹھایا جائے۔
معاصر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں درحقیقت عالمی برادری کا ایک نیا آلہ ہیں، جس کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث افراد کو سزا دی جاتی ہے بغیر اس کے کہ پوری اقتصادی یا فوجی پابندیاں عائد کی جائیں۔ اس اقدام سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کوششوں کو وقتی طور پر تقویت مل سکتی ہے، تاہم طویل مدتی نتائج اس امر پر منحصر ہوں گے کہ کیا اسرائیلی حکومت اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی لاتی ہے یا نہیں۔“ایران کی سخت وارننگ: اسرائیلی حملے کی صورت میں خفیہ جوہری سائٹس کو فوری نشانہ بنایا جائے گا!”