لاس اینجلس میں کرفیو نافذ، ٹرمپ کا سخت ردعمل — ’شہر کو آزاد کروا دیں گے‘

امریکا کے شہر لاس اینجلس میں حالات کشیدہ ہونے کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ مظاہروں، جھڑپوں اور لوٹ مار کے واقعات میں اضافے کے بعد شہری حکومت نے رات کا کرفیو لاگو کرتے ہوئے پولیس اور نیشنل گارڈز کو الرٹ کر دیا ہے۔
اسی دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک شدت پسندانہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر موجودہ انتظامیہ ناکام رہی تو وہ لاس اینجلس کو “آزاد کرانے کے لیے قدم اٹھائیں گے”۔ ٹرمپ کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے، جہاں اسے سیاسی مداخلت اور ریاستی خودمختاری پر حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
🔍 پس منظر:
لاس اینجلس میں حالیہ کشیدگی کی وجہ پولیس تشدد، نسلی امتیاز اور معاشی بے چینی بتائی جا رہی ہے۔ شہری احتجاج کر رہے ہیں، جبکہ چند عناصر نے ان مظاہروں کو تشدد میں بدل دیا، جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔
🧭 ٹرمپ کا مؤقف:
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا:
“لاس اینجلس اب امریکی شہریوں کا نہیں، جرائم پیشہ گروہوں کا شہر بنتا جا رہا ہے۔ اگر بائیڈن انتظامیہ نے ہاتھ نہ اٹھایا، تو ہم شہر کو آزاد کروانے کے لیے ایکشن لیں گے!”
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بیان انتخابی دباؤ یا پارٹی بنیاد پر ردعمل کا شاخسانہ ہو سکتا ہے، لیکن اس سے موجودہ سیاسی درجہ حرارت مزید بلند ہو گیا ہے۔
💬 عوامی ردعمل:
ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کے بیان کو “فاشزم کی بو” قرار دیا۔
ریپبلکنز کے کچھ حلقے اس بیان کو “قانون کی بالادستی کا مطالبہ” کہہ رہے ہیں۔
عام شہری کرفیو سے پریشان ہیں، لیکن پرتشدد مظاہروں سے بھی خائف۔
کیا لاس اینجلس کا بحران ایک امن و امان کا مسئلہ ہے یا سیاسی جنگ کا میدان؟ یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو گا، لیکن ایک بات طے ہے: امریکا کا سب سے روشن شہر اس وقت سب سے زیادہ دھند میں ہے۔