“ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود امریکہ بھر میں امیگریشن پالیسیوں کے خلاف مظاہرے جاری”

واقعہ کا پس منظر اور مظاہروں کی وسعت
لاس اینجلس میں مظاہروں کی شروعات: ICE کی امیگریشن چھاپہ مار کارروائیوں کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں نے جلد ہی پورے ملک کا رخ کیا۔
فوجی دستوں کی نفری: صدر ٹرمپ نے 4,000 نیشنل گارڈ اور 700 میرینز تعینات کر دئیے، جو کچھ شہروں میں اضافی طور پر فوجی دستوں کے تعین کی دھمکی بھی دے رہے ہیں ।
گورنر نیوزم کی قانونی مخالفت: کیلی فورنیا کے گورنر گیوِن نیوزم نے اس اقدام کو “ڈیموکریسی پر حملہ” قرار دے کر فیڈرل حکومت کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کیا ۔
مظاہروں کی نوعیت و ردعمل:
زیادہ تر مظاہرے پرامن مگر بعض جگہوں پر توڑ پھوڑ اور لڑاؤ بھی ہوا، جہاں پولیس نے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کا استعمال کیا ۔
لب و لیس پارکس، کلیدی عمارتوں پر مظاہرین کے ہجوم دیکھے گئے جنہوں نے امریکن اور لاطینی پرچم اٹھا رکھے تھے ۔
🌍 ملک گیر تحریک: “No Kings”
مزید شہروں میں احتجاج جاری:
نیویارک، شکاگو، سیئٹل، ڈیوس اور سینٹ لوئیس جیسے شہروں میں مظاہرے بڑھ گئے، اور ٹیکساس میں گورنر ایبٹ نے نیشنل گارڈ
‘No Kings’ تحریک نے واشنگٹن ڈی سی میں ٹرمپ کے طیارہ مارچ کے روز مزید مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ۔
🏛️ سیاسی اور قانونی روحیں
فریق موقف
ٹرمپ انتظامیہ مظاہروں کو سفارتی خرابی اور سیاسی فراہمی کا ذریعہ قرار دے رہی ہے، اور فوج کو اعانت کے لیے مستعد کررہی ہے ۔
گورنر نیوزم، میئر باس، دیگر یہ اقدام افواج کی استبدادی مداخلت ہے، جس سے ریاستی خودمختاری اور شہری آزادیوں کو نقصان پہنچا ہے ۔
آفیشل عدالتی کارروائی کیلی فورنیا نے فوج کی ریاست میں تعیناتی روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے، جس کے فریقین نے دلائل دیے ہیں ۔
مظاہرین “authoritarianism” کے خلاف پہلے دن سے نعرے لگا رہے ہیں، اور انہوں نے کہا ہے کہ امیگریشن کی زد میں غیر مجرمانہ نقل مکانی کرنے والوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
ایک مظاہرین نے کہ
یہ وضاحت کرتی ہے کہ حکومت اور پروٹیسٹرز کے بیچ بیانیہ میں کتنا فرق ہے۔
ٹرمپ کی دھمکیوں اور فوجی تعیناتی کے باوجود مظاہرے جاری ہیں، اور امریکہ میں امیگریشن کے اصول اور شہری آزادیوں پر گہری بحث چھڑ گئی ہے۔ یہ تحریک مستقبل میں ریاست اور وفاق کے درمیان طاقت کے توازن پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔