“جب دشمن کی گھن گرج کی پیشگی اطلاعات موجود ہوں، تب بھی ایرانی فوجی قیادت اور ایٹمی سائنسدانوں کی غیر محتاط موجودگی ایک سوالیہ نشان ہے۔”

ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے نہ صرف ایک فوجی اور سیاسی دھچکا دیا بلکہ ایک گہری خاموشی اور حیرت کا سبب بھی بنا کہ کس طرح اتنی حساس اور اہم شخصیات، جن میں اعلیٰ فوجی کمانڈر اور نیوکلیئر سائنسدان شامل تھے، ایک غیر محفوظ عمارت میں جمع تھیں، جبکہ ان کے پاس دشمن حملے کی واضح معلومات موجود تھیں۔ عام طور پر ایسی صورتحال میں عالمی سطح پر حفاظتی پروٹوکولز کے تحت اعلیٰ عہدے داروں کو محفوظ بنکرز، زیر زمین کمانڈ سینٹرز یا خفیہ مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی حملے کی صورت میں ان کی جان کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ لیکن ایران میں اس بار ایسا نہ کیا جانا داخلی نظامی کمزوری، انتظامی غفلت یا شاید سیاسی وجوہات کا مظہر ہے۔ اس غیر محتاط رویے نے اسرائیل کو ایک موقع فراہم کیا کہ وہ موثر اور دقیق حملہ کر سکے جس میں ایران کی عسکری قیادت اور اہم نیوکلیئر سائنسدان ہلاک ہوئے۔ یہ واقعہ ایران کی اندرونی حفاظتی نظام کی ناکامی اور خطے میں اس کی عسکری استعداد پر سوالیہ نشان ہے۔ مزید یہ کہ، جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے باوجود بھی فوجی قیادت کا بنکرز میں منتقل نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران نے حملے کی شدت اور ممکنہ نتائج کو کم سمجھا یا حفاظتی انتظامات میں غیر سنجیدگی برتی۔ اس کا اثر نہ صرف ایران کے عسکری ڈھانچے پر پڑا بلکہ عالمی سیاست اور مشرقِ وسطیٰ کے استحکام پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس واقعے نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر یاد دلایا کہ جدید جنگ میں صرف عسکری طاقت ہی نہیں بلکہ مؤثر حفاظتی انتظامات اور اطلاعات کی بروقت حفاظت بھی کامیابی کی کلید ہے۔