“ایران کی اعلیٰ ایٹمی مذاکرات کار علی شمخانی کی اسرائیلی حملے میں شہادت نے تہران کے حکومتی ڈھانچے کو زبردست دھچکا دے دیا ہے۔”

علی شمخانی، جو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے سینئر مشیر اور نیوکلیئر مذاکرات کی مرکزی شخصیت تھے، اسرائیلی فضائی حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد جان کی بازی ہار گئے۔ تہران کے حساس علاقے میں ان کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا، جہاں وہ ملک کی سفارتی اور دفاعی حکمت عملی کے لئے نہایت اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ان کی موت ایران کے لیے ایک بڑا نقصان ہے کیونکہ وہ پاسداران انقلاب اور ملکی سیکیورٹی پالیسی کے سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے اور مغربی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کا کلیدی ستون سمجھے جاتے تھے۔
ان کی غیر متوقع شہادت سے ایران کی نیوکلیئر مذاکراتی ٹیم تقریباً تحلیل ہو چکی ہے اور اب یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ ایران مذاکرات کی میز پر کیسے واپس آئے گا جب اس کی مرکزی قیادت ہی ختم ہو چکی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب “قیادت میں کئی لوگ واپس نہیں آئیں گے” اور مذاکرات کے امکان پر گہرا شک ظاہر کیا ہے۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایران کی اعلیٰ فوجی اور سفارتی قیادت کو چن چن کر نشانہ بنانے کی واضح حکمت عملی کا حصہ ہے، جو خطے میں طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے اور عالمی سیاسی منظرنامے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔ علی شمخانی کی موت ایران کی سفارتی دیوار کا آخری ستون گرنے کے مترادف ہے، اور اب دنیا اس انتظار میں ہے کہ آیا ایران اس زبردست دھچکے کے بعد سخت جوابی کارروائی کرے گا یا سفارتی راستے مکمل طور پر بند ہو جائیں گے۔
یہ واقعہ مشرق وسطیٰ کی کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گا اور عالمی طاقتوں کو تیسری عالمی جنگ کے ممکنہ خطرے سے خبردار کر رہا ہے، جہاں سفارتی مذاکرات اور امن کا قیام اب ایک نازک مرحلے پر کھڑا ہے۔