اسرائیل کی اصل طاقت: ٹیکنالوجی یا عرب دلالی؟

جب ہم اسرائیل کی عسکری طاقت کی بات کرتے ہیں تو اکثر ذہن میں جدید ہتھیار، F-35 طیارے، آئرن ڈوم سسٹم اور جدید انٹیلیجنس آتی ہے۔ لیکن کیا صرف یہی عوامل اسرائیل کو ناقابلِ شکست بناتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی اصل طاقت صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ اس کے ارد گرد موجود وہ عرب ممالک ہیں جو خاموشی سے یا بعض اوقات کھلے عام اس کی لاجسٹک اور سیاسی حمایت کرتے ہیں۔

جب اسرائیلی لڑاکا طیارے ایران یا شام جیسے دور دراز ممالک پر حملے کے لیے 1600 کلومیٹر یا اس سے زیادہ کا فاصلہ طے کرتے ہیں، تو ان طیاروں کو ریفولنگ (ایندھن کی فراہمی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایندھن کہاں سے ملتا ہے؟
یہ عمل فضاء میں بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مخصوص طیارے اور محفوظ راستے درکار ہوتے ہیں، جو صرف مخصوص فضائی حدود میں ممکن ہیں۔

ذرائع اور تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیل کے کئی حملے متحدہ عرب امارات، اردن، اور عراق کی فضائی حدود سے گزر کر کیے گئے، جہاں یا تو آنکھ بند کی گئی یا خفیہ اجازت دی گئی۔ کچھ رپورٹس یہ بھی کہتی ہیں کہ اسرائیلی طیارے بعض عرب اڈوں سے ریفولنگ یا لینڈنگ کی سہولت بھی حاصل کرتے ہیں — خاص طور پر جب بات ایران جیسے دور ہدف کی ہو۔

متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔ جب کہ اردن اور مصر جیسے ممالک پہلے ہی امن معاہدے کر چکے ہیں۔ عراق اگرچہ رسمی طور پر اسرائیل کا مخالف ہے، مگر وہاں امریکی اڈے اور فضائی کنٹرول موجود ہے، جہاں سے اسرائیل کو ان ڈائریکٹ فائدہ ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کئی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کی فوجی کامیابی میں عرب دنیا کی “خاموش شراکت” بھی شامل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں