“تہران کی فضا دھماکوں سے لرز رہی ہے — 78 جانیں جا چکیں، اور جنگ کا سایہ دارالحکومت پر منڈلا رہا ہے۔”

ایرانی دارالحکومت تہران کے مختلف علاقوں میں اس وقت بھی زور دار دھماکوں اور فضائی دفاعی نظام کی سرگرمیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، جس سے پورے شہر میں غیرمعمولی خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران کے اہم فوجی اور سویلین انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور آسمان پر ایرانی دفاعی میزائل سسٹمز مسلسل متحرک ہیں۔

ایرانی سفیر نے تصدیق کی ہے کہ حالیہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں:

78 ایرانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں،

جن میں اعلیٰ فوجی افسران بھی شامل ہیں،

جبکہ 320 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں کئی کی حالت تشویشناک ہے۔

یہ حملے کیوں اہم ہیں؟
براہِ راست حملہ بر دارالحکومت:
تہران جیسے مرکزی شہر پر حملے صرف عسکری چیلنج نہیں بلکہ ایران کی خودمختاری پر براہِ راست ضرب ہیں۔ یہ نہ صرف عسکری بلکہ سیاسی پیغام بھی ہے۔

اعلیٰ فوجی افسران کی ہلاکت:
ان افسران کی ہلاکت ایران کی دفاعی کمانڈ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، اور ممکنہ طور پر ایرانی ردِعمل کو مزید سخت بنا سکتی ہے۔

فضائی دفاع کی ناکامی یا چیلنج؟
اگرچہ ایران کے فضائی دفاعی نظام فعال ہیں، لیکن شہری علاقوں میں مسلسل دھماکوں کی آوازیں بتاتی ہیں کہ یا تو دفاعی نظام ناکافی ثابت ہو رہا ہے یا حملے انتہائی جدید نوعیت کے ہیں۔

ممکنہ نتائج:
فوری فوجی ردِعمل: ایران اسرائیل یا اس کے مفادات پر جوابی کارروائی کر سکتا ہے، چاہے وہ براہِ راست ہو یا علاقائی پراکسیز کے ذریعے۔

علاقائی کشیدگی میں شدت: یہ حملے شام، لبنان، عراق اور خلیجی ریاستوں کو بھی براہِ راست تنازع میں گھسیٹ سکتے ہیں۔

عالمی ردعمل: روس، چین، ترکی اور دیگر ممالک ممکنہ طور پر ایران کے دفاع میں آواز بلند کریں گے، جب کہ امریکہ اور یورپی یونین اسرائیل کی سیکیورٹی کا دفاع کر سکتے ہیں — نتیجتاً ایک نیا عالمی تقسیم ابھرتا دکھائی دے رہا ہے۔

“اردن نے نہایت ہوشیاری سے اپنے آسمان کو خطرے سے محفوظ رکھا — ایرانی ڈرونز نے ان کی فضائی حدود کو عبور کرنے کی کوشش کی مگر اسرائیلی اور اردنی دفاع نے انہیں تباہ کر دیا۔”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں