ٹرمپ کی ایران کو پھر جوہری معاہدے کی میز پر لانے کی کوشش—کیا یہ دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے؟

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کو ایٹمی ڈیل پر واپس آنے کا مشورہ دے کر عالمی سفارتی منظرنامے میں ہلچل مچا دی ہے۔ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں کہا کہ “ایران کو چاہیے کہ وہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئے، کیونکہ موجودہ صورتحال خطے اور دنیا کے لیے خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔”
یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 میں جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) یعنی ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی تھی، جس کے بعد ایران نے بھی اس معاہدے پر عملدرآمد کم کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے، جس کا حالیہ مظہر ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی عسکری محاذ آرائی ہے۔
ٹرمپ کی حالیہ تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں اور مغربی ممالک کے ساتھ سفارتی تناؤ نے خطے کو ممکنہ جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “اگر ایران دوبارہ ایک مؤثر اور شفاف معاہدے کے لیے تیار ہو تو امریکا کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔”
ماہرین کے مطابق ٹرمپ کا یہ بیان صرف ایک سفارتی اشارہ نہیں بلکہ ان کے ممکنہ صدارتی انتخابی ایجنڈے کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ دوبارہ صدارت کے امیدوار ہیں، اور ایران سے بہتر تعلقات کی بات کرنا اُن کی انتخابی مہم میں “مصالحت پسند” پہلو کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب، ایران نے باضابطہ طور پر اس مشورے پر ردعمل نہیں دیا، لیکن ایرانی حکام ماضی میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو معاہدے میں واپسی سے پہلے پابندیاں ہٹانی ہوں گی اور ایران کے مفادات کی ضمانت دینی ہو گی۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر امریکا اور ایران کے درمیان دوبارہ ایٹمی معاہدے کی بات چیت شروع ہوتی ہے تو نہ صرف خطے میں کشیدگی کم ہو سکتی ہے بلکہ یہ عالمی معیشت، توانائی کی منڈیوں اور سفارتی توازن پر بھی مثبت اثر ڈالے گا۔