“یہ وہ لمحہ ہے جس کا خدشہ تھا — زبانی مذمت سے بڑھ کر، اب مسلمان ریاستیں عملی قدم اٹھا رہی ہیں، اور مشرقِ وسطیٰ کا توازن لرزنے لگا ہے۔”

ایران کا عملی ردعمل: ایک نئے عہد کا آغاز؟
ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملے صرف ایک عسکری کارروائی نہیں، بلکہ ایک نظریاتی اور اسٹریٹیجک پیغام ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایران اب صرف سفارتی احتجاج تک محدود نہیں رہنا چاہتا، بلکہ وہ اپنی فوجی طاقت کو براہِ راست استعمال کر کے اسرائیلی برتری کے تصور کو چیلنج کر رہا ہے۔
“یہ وہ لمحہ ہے جسے اسرائیل نے ہمیشہ ٹالنے کی کوشش کی”
یہ جملہ حقیقت پر مبنی ہے، کیونکہ اسرائیل نے ہمیشہ اپنی پالیسیوں میں دو اہم نکات کو یقینی بنانے کی کوشش کی:
کسی مسلم ریاست سے براہِ راست جنگ نہ ہو (بالخصوص ایران جیسی طاقت سے)
خطے میں فوجی برتری اور ڈیٹرنس (Deterrence) کا تاثر قائم رہے
ایران کی یہ کارروائی ان دونوں نکات کو براہِ راست چیلنج کر رہی ہے۔
ایران کا پیغام: “ڈپلومیسی ختم، جنگ شروع”
ایران کے میزائل حملے یہ واضح کر رہے ہیں کہ اب بات صرف اقوامِ متحدہ میں قراردادوں یا ٹی وی انٹرویوز تک محدود نہیں رہی، بلکہ اسٹریٹیجک میدان میں قدم رکھنے کا وقت آ گیا ہے۔
پیغام برائے اسرائیل:
“ہم تمہیں صرف مذمت سے نہیں روکیں گے، بلکہ اب تمہیں ہتھیاروں سے روکیں گے۔”
پیغام برائے عرب دنیا:
“ایران واحد ریاست ہے جو اسرائیل کے خلاف عملی قدم اٹھانے کو تیار ہے، تم کب بیدار ہو گے؟”
پیغام برائے مغرب:
“اگر اسرائیل کی یکطرفہ حمایت جاری رہی، تو ہم خطے کا امن داؤ پر لگا سکتے ہیں۔”
اسرائیل کا اسٹریٹیجک صدمہ:
ایران کی یہ براہ راست کارروائی اسرائیل کے لیے کئی سطحوں پر خطرناک ہے:
سیکیورٹی کا نفسیاتی بریک ڈاؤن:
آئرن ڈوم مضبوط ضرور ہے، مگر ایرانی میزائل حملوں کی شدت اور تسلسل اسرائیلی عوام میں خوف و بےاعتمادی پیدا کر رہے ہیں۔
عالمی حمایت کا امتحان:
کیا امریکہ اور مغرب اب بھی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت جاری رکھیں گے، جب ایک مسلم ریاست نے کھلم کھلا میدان میں قدم رکھ دیا ہے؟
ریجنل اتحادوں کی دھڑکن:
ایران کی یہ یلغار سعودی عرب، قطر، امارات اور ترکی جیسے ممالک کو بھی سفارتی اور عسکری پوزیشن لینے پر مجبور کر سکتی ہے۔
کیا یہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ ہے؟
ممکنہ اسٹیجنگ گراؤنڈز:
لبنان، شام، عراق اور غزہ اگلے چند دنوں میں اہم فرنٹ لائن بن سکتے ہیں۔
عرب دنیا کا دباؤ:
اگر ایران کو خاموش نہ کیا گیا، تو دیگر مسلم ریاستوں پر بھی اپنے عوامی جذبات کے تحت عملی اقدامات کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
یہ ایران کی جانب سے “زبان کی جنگ” کو “ہتھیاروں کی جنگ” میں تبدیل کرنے کا تاریخی لمحہ ہے۔
اسرائیل کے لیے یہ صرف میزائلوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے پورے دفاعی فلسفے، علاقائی برتری اور عالمی ساکھ کا مسئلہ بن چکا ہے۔