“جب تاریخ کے ملبے سے اٹھنے والا شاہی وارث سامراج کے سائے میں چھپنے لگا، تو خواجہ آصف نے نشتر چلا دیا!”

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایران-اسرائیل تنازع کے دوران معزول ایرانی بادشاہ کے بیٹے، رضا پہلوی، کے اسرائیل کی حمایت میں دیے گئے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اُنہیں ’’طفیلی سامراجی رنڈوا‘‘ قرار دیا۔ یہ جملہ نہ صرف سیاسی محاذ پر گونج اُٹھا بلکہ سفارتی لہجوں میں اس طرح کی شدت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ خواجہ آصف کا یہ تبصرہ محض غصے کا اظہار نہیں، بلکہ اس کے پیچھے تاریخی، علاقائی اور نظریاتی پہلو بھی چھپے ہوئے ہیں۔
رضا پہلوی، جنہیں مغربی میڈیا “ایران کا جمہوری مستقبل” کہہ کر پیش کرتا ہے، کئی سالوں سے امریکہ اور اسرائیل کی پالیسی لائن پر کھل کر چل رہے ہیں۔ حالیہ اسرائیل-ایران کشیدگی میں اُنہوں نے اسرائیل کے ’’حقِ دفاع‘‘ کی حمایت کرتے ہوئے تہران حکومت کو ’’ظالم‘‘، ’’دہشتگرد‘‘ اور ’’ناقابلِ اصلاح تھیوکریسی‘‘ قرار دیا۔
اسی پس منظر میں خواجہ آصف نے سخت ردِعمل دیا — “طفیلی” کا مطلب ہے ایسا شخص جو دوسروں کے رحم و کرم پر زندہ ہو؛ “سامراجی” ظاہر کرتا ہے کہ وہ مغرب، خصوصاً امریکہ و اسرائیل کے مفادات کا نمائندہ ہے؛ اور “رنڈوا” شاید سیاسی معنوں میں — ایک ایسا کردار جو ماضی میں حکومت کرتا تھا مگر اب محض ایک یادگار باقی ہے، طاقت سے محروم اور سیاسی طور پر تنہا۔
یہ بیان ایسے وقت آیا جب خطے میں ایران کے خلاف بننے والے غیر رسمی اتحاد پر پاکستان نے کھل کر تنقید نہیں کی، لیکن خواجہ آصف کے اس جملے سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان اب اسرائیل کی حمایت کرنے والے ایرانی مہاجر گروہوں یا شخصیات کو خطے کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
رضا پہلوی خود جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اکثر مغربی تھنک ٹینکس و میڈیا میں ایران کے اندر ’’جمہوریت‘‘ کے نقیب بن کر سامنے آتے ہیں، مگر ایران میں ان کی کوئی عوامی یا زمینی حمایت موجود نہیں ہے۔
خواجہ آصف کا یہ بیان بظاہر تلخ اور ذاتی لگتا ہے، مگر خطے میں ایرانی خودمختاری اور اسرائیلی اثراندازی کے تناظر میں یہ پاکستان کی نظریاتی وابستگی کا بھی اعلان ہے — ایک ایسا اعلان جو ممکن ہے سرکاری سطح پر نہ ہو، لیکن عوامی اور علاقائی جذبات کی ترجمانی ضرور کرتا ہے۔