کیا اسرائیل نے ایران کے حملے کے بعد غزہ میں حملے کم کر دیے ہیں؟

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی نے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن ایک نئی سمت موڑ دیا ہے۔ ایران کے میزائل حملے اور اسرائیلی فضائی جوابی کارروائیوں نے عالمی توجہ کو وقتی طور پر غزہ سے ہٹا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مبصرین کا ماننا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدت میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔
اسرائیل نے حالیہ ہفتوں میں غزہ پر جو مستقل حملے جاری رکھے ہوئے تھے، ان میں اب نسبتاً سست روی دیکھنے کو ملی ہے۔ اسرائیلی فوج کی زیادہ توجہ اس وقت ایران اور خطے کے دیگر ممکنہ ردعمل پر مرکوز ہو چکی ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیل ایک ہی وقت میں دو بڑے محاذوں پر مکمل شدت سے لڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا غزہ میں اس کی کارروائیاں کچھ حد تک محدود ہو گئی ہیں۔
اگرچہ مکمل جنگ بندی یا حملے بند ہونے کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی، تاہم حالیہ دنوں میں غزہ کے مختلف علاقوں پر ہونے والے فضائی حملوں کی تعداد میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ چند حملے اب بھی جاری ہیں، مگر ان کا دائرہ اور شدت وہ نہیں جو ایران سے تصادم سے پہلے تھی۔
یہ بدلتی ہوئی حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل فی الحال بین الاقوامی دباؤ اور اندرونی وسائل کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ غزہ میں انسانی بحران بدستور سنگین ہے، مگر میڈیا اور سفارتی محاذ پر اس کا ذکر پیچھے چلا گیا ہے کیونکہ دنیا کی نظریں تہران اور تل ابیب کی جانب مرکوز ہیں۔
آنے والے دنوں میں یہ صورتحال بدل سکتی ہے، خاص طور پر اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کم ہو یا کوئی نیا فریق مداخلت کرے۔ فی الحال، غزہ ایک نسبتاً کم توجہ یافتہ محاذ بن چکا ہے، مگر خطرات بدستور موجود ہیں۔