“باہر شدید گرمی، اندر فولادی عزم—یہ ہے ایک ناقابلِ شکست لیڈر کی کہانی!”

جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید، شدید گرمی، محدود سہولیات، اور سیاسی انتقام کے سائے میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی زندگی ان دنوں ایک غیرمعمولی آزمائش کا شکار ہے۔ مگر جو بات سب کو حیرت میں ڈالے ہوئے ہے، وہ ان کا حوصلہ، استقامت، اور “نہ ڈرنے” والا رویہ ہے—وہی رویہ جو برسوں سے ان کی شناخت بن چکا ہے۔
عمران خان، جو ایک زمانے میں ورلڈ کپ کے فاتح کپتان اور پھر کروڑوں دلوں کے مقبول ترین سیاستدان بنے، آج اڈیالہ جیل کی چار دیواری میں محصور ہیں۔ ان پر متعدد مقدمات قائم ہیں، ان کا میڈیا بلیک آؤٹ ہے، اور جسمانی تکلیف اور گرمی کے باوجود ان کی آواز ان کے کارکنوں کے لیے آج بھی امید کا پیغام ہے۔ اڈیالہ جیل میں 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد گرمی، محدود پنکھے، ناقص کھانے اور سیاسی دباؤ کے باوجود خان نہ صرف خود کو سنبھالے ہوئے ہیں بلکہ اندر سے دوسروں کو بھی حوصلہ دیتے ہیں۔
خفیہ ملاقاتوں کی رپورٹس ہوں یا وکلا سے ہونے والی بات چیت، ہر پہلو سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عمران خان اپنی گرفتاری کو ذاتی سانحہ نہیں، بلکہ ایک نظریاتی جنگ سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق، وہ روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں، اخبار پڑھتے ہیں، اور بیرونی دنیا میں اپنے حامیوں سے رابطے کا کوئی ذریعہ میسر ہو تو اُنہیں پیغام دیتے ہیں کہ “یہ وقت گزر جائے گا، ہارنے والا وہی ہے جو ہار مانے۔”
عوامی سطح پر بھی خان کے لیے ہمدردی کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ گرمی، بے یقینی اور معاشی بحران کے اس ماحول میں اُن کی خاموشی خود ایک بڑی گونج بن چکی ہے—ایسی گونج جو در و دیوار کے پار سنائی دیتی ہے۔
یہ صرف ایک قیدی کی کہانی نہیں، یہ ایک رہنما کی آزمائش ہے، جو وقت، طاقت اور سازشوں کے آگے جھکنے کو تیار نہیں۔ اور شاید اسی لیے، لاکھ تنہائی، گرمی اور دباؤ کے باوجود، عمران خان اب بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہیں—بطور ایک ایسا لیڈر جو نہ جھکا، نہ بکا، نہ ڈرا۔