“خاندان کا جھگڑا یا مالیاتی بم؟ سن رائزرز حیدرآباد پر منی لانڈرنگ کے الزامات نے آئی پی ایل کو ہلا کر رکھ دیا!”

انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کی مشہور ٹیم سن رائزرز حیدرآباد ایک بڑے تنازع کا شکار ہو گئی ہے—اور اس بار معاملہ نہ کسی میچ کا ہے، نہ کسی کھلاڑی کا، بلکہ بات ہے اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ اور خاندانی چپقلش کی، جو اب قانونی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

کہانی کا آغاز: بھائی کا بھائی پر الزام
سن رائزرز حیدرآباد کی چیف ایگزیکٹو کاویا مارن کے والد، کالا نیتھی مارن، جو کہ میڈیا جائنٹ سن ٹی وی نیٹ ورک کے چیئرمین بھی ہیں، ان پر ان کے اپنے بھائی دیانی دھی مارن نے سنگین الزامات لگائے ہیں۔ ان الزامات میں مالی بدعنوانی، منی لانڈرنگ، اور خاندان کے شیئرز پر ناجائز قبضے جیسے نکات شامل ہیں۔

شیئرز میں ہیرا پھیری اور مبینہ فراڈ
دیانی دھی مارن کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھائی نے 2003 میں، جب والد شدید بیمار تھے، صرف 10 روپے فی شیئر کی قیمت پر 12 لاکھ شیئرز خود کو الاٹ کروائے—جبکہ اصل مارکیٹ ویلیو اس وقت 2500 روپے سے زائد تھی۔ اس اقدام کے باعث خاندانی حصے داری 50 فیصد سے گر کر صرف 20 فیصد رہ گئی، اور بقول دیانی دھی، خاندان کو تقریباً 3,500 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

منی لانڈرنگ اور سن رائزرز کی فنڈنگ
بڑے انکشافات میں سے ایک یہ ہے کہ دیانی دھی نے دعویٰ کیا کہ کالا نیتھی مارن نے سن رائزرز حیدرآباد سمیت متعدد کمپنیوں کی فنڈنگ مبینہ مجرمانہ آمدنی سے کی، جن میں شامل ہیں:

سن ڈائریکٹ ٹی وی

اسپائس جیٹ

کال ریڈیوز

ساؤتھ ایشین ایف ایم

جنوبی افریقی و برطانوی ٹی20 لیگز کی ٹیمیں

اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں، تو سن رائزرز حیدرآباد پر منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ چل سکتا ہے۔

قانونی محاذ پر لڑائی
دیانی دھی نے قانونی نوٹس کے ذریعے یہ مطالبہ کیا ہے کہ کالا نیتھی مارن اور ان کی بیوی کاویری مارن:

تمام اثاثے اور شیئرز واپس کریں

2003 سے اب تک حاصل کیا گیا سارا منافع واپس کریں

بصورت دیگر، فوجداری و دیوانی مقدمات کا سامنا کریں

سن رائزرز کا مستقبل داؤ پر؟
آئی پی ایل کی فرنچائزز پہلے ہی فرنچائز ماڈل کے مالیاتی نظام پر شکوک و شبہات کا شکار رہی ہیں۔ اب اگر یہ الزامات ثابت ہو گئے تو سن رائزرز حیدرآباد کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ آئی پی ایل بورڈ پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اس معاملے پر شفاف تحقیقات کرائے۔

یہ ایک خاندانی جنگ ہے جس کے اثرات آئی پی ایل کے میدان سے لے کر کارپوریٹ انڈیا اور سیاسی ایوانوں تک جا سکتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں