“اسرائیل چاہے جتنا زور لگا لے، ایران کا جوہری پروگرام ختم نہیں کر سکتا” — ڈونلڈ ٹرمپ

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان:
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حالیہ انٹرویو میں اسرائیل کی عسکری صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ:
“اسرائیل کے پاس اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کر سکے۔”
یہ بیان مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال اور ایران کے بڑھتے ہوئے ایٹمی پروگرام کے تناظر میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
پس منظر:
ایران کا جوہری پروگرام 2000 کی دہائی سے عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
2015 میں جوہری معاہدہ (JCPOA) ہوا، جس سے ٹرمپ نے 2018 میں امریکہ کو علیحدہ کر دیا۔
اسرائیل نے بارہا دھمکی دی ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی تنصیبات پر یکطرفہ حملہ کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کے بیان کے ممکنہ مقاصد:
اسرائیل پر دباؤ ڈالنا: ممکن ہے ٹرمپ اسرائیلی قیادت کو محدود قدم اٹھانے پر مجبور کرنا چاہتے ہوں۔
امریکی کردار کو نمایاں کرنا: ان کا کہنا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف امریکہ ہی ایران کو روکنے کی طاقت رکھتا ہے، اسرائیل نہیں۔
داخلی سیاست: یہ بیان امریکی صدارتی انتخابی سیاست کے تناظر میں بھی آ سکتا ہے، جہاں ایران اور اسرائیل دونوں اہم موضوعات ہیں۔
اسرائیلی ردِعمل:
تاحال اسرائیلی حکومت نے اس بیان پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا، لیکن اسرائیلی دفاعی حلقوں میں اس بیان کو “حوصلہ شکن” اور “حقائق سے ہٹ کر” قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیل ماضی میں عراق (1981) اور شام (2007) کی جوہری تنصیبات پر حملے کر چکا ہے، اور ایران کو بھی اسی طرز پر روکنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔
ماہرین کا تجزیہ:
فوجی ماہرین کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر تباہ کرنا نہایت مشکل ہے، کیونکہ:
تنصیبات زمین کے اندر گہرائی میں موجود ہیں۔
ایران نے اپنا نیٹ ورک پوری ملک میں پھیلا رکھا ہے۔
ایران کی دفاعی صلاحیت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔“جب صدر اپنی ہی انٹیلیجنس کو غلط قرار دے تو عالمی پالیسی کہاں جائے؟”
ٹرمپ کا بیان خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات اور ایران سے متعلق حکمت عملی پر نئی بحث کا آغاز کر رہا ہے۔ اگرچہ اسرائیل کے پاس جدید ترین ہتھیار اور خفیہ ایجنسی ہے، لیکن ایران کی جوہری صلاحیت ایک پیچیدہ اور گہرائی میں جڑی حقیقت بن چکی ہے، جسے ختم کرنا آسان نہیں۔