“سیاح پھنس گئے، پل بہہ گئے — اپر دیر میں بارش نے قیامت ڈھا دی!”

خیبر پختونخوا کے حسین مگر حساس ضلع اپر دیر میں گزشتہ شب ہونے والی موسلادھار بارش نے قدرت کی ایک اور سخت آزمائش کو جنم دے دیا۔ آسمان سے برسنے والا پانی، جب پہاڑی ندی نالوں میں سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کر گیا، تو علاقے کا نقشہ ہی بدل گیا۔

سیاحتی مقام کمراٹ، جو اپنی خوبصورتی کے باعث ہزاروں دلوں کو کھینچتا ہے، آج وہاں صرف پانی کی گرج سنائی دے رہی ہے اور لوگوں کی چیخیں۔ طوفانی ریلوں نے کمراٹ کا مرکزی پُل اور اس کے ساتھ تین اہم رابطہ پلوں کو بہا کر رکھ دیا، جن کے ذریعے مقامی آبادی اور سیاح آس پاس کے علاقوں سے جُڑے رہتے تھے۔

شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چار مکانات مکمل یا جزوی طور پر منہدم ہو گئے، جب کہ ایک پاور ہاؤس بھی پانی کی زد میں آ کر ناکارہ ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں بجلی کی فراہمی معطل ہو چکی ہے۔

سب سے دل دہلا دینے والی خبر یہ ہے کہ ایک معصوم بچہ سیلابی ریلے میں بہہ گیا، جس کی تلاش تاحال جاری ہے۔ مقامی افراد اور ریسکیو ٹیمیں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر پانی کا بہاؤ اس قدر شدید ہے کہ ہر لمحہ قیمتی جانوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔

پُلوں کے بہہ جانے سے جہاز بانڈہ اور دیگر سیاحتی علاقوں میں موجود درجنوں سیاح راستے بند ہونے کے سبب پھنس گئے ہیں۔ ان کے پاس نہ مکمل خوراک ہے، نہ رہنے کی محفوظ جگہ، اور نہ ہی کسی ریسکیو ٹیم سے فوری رابطے کی سہولت۔

ادھر محکمہ موسمیات پہلے ہی 20 سے 23 جون کے درمیان پری مون سون سیزن کے آغاز اور شدید بارشوں کے الرٹ جاری کر چکا تھا۔ ان کے مطابق خلیجِ بنگال اور بحیرۂ عرب سے اٹھنے والی مرطوب ہوائیں پاکستان کے بالائی اور وسطی علاقوں میں داخل ہو چکی ہیں، جب کہ مغربی ہواؤں کا طاقتور سلسلہ بھی خطے پر اثرانداز ہو رہا ہے۔

اپر دیر کی اس تباہی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ قدرتی آفات کے سامنے انسان کی تیاری اکثر ناکافی ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف خوبصورتی اور سکون کے خواہاں سیاح مشکلات کا شکار ہیں، وہیں مقامی آبادی کو اپنی چھت، روزگار، اور جان کے تحفظ کا بحران درپیش ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں