ایک خفیہ حملہ خلیج کے پانیوں کو زہر آلود کر کے صدیوں کی زندگی اجاڑ سکتا ہے۔

خلیج کے ساحلی ممالک کے لیے بوشہر جوہری پاور اسٹیشن محض ایک انفراسٹرکچر نہیں بلکہ روز مرہ کے پینے کے پانی کا اہم ذریعہ ہے؛ اگر اسرائیلی فضائی حملے کی زد میں یہ پلانٹ آئے اور تابکار مواد ہوا یا سمندری پانی میں ملا، تو سیسیم اور اسٹرانسیم جیسے خطرناک ریڈیائی آئسوٹوپس اثاثہ جاتی طوفان کھڑے کر دیں گے۔ متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور کویت کا زیادہ تر پانی سمندر سے صاف شدہ ہوتا ہے، لہٰذا ایک معمولی رساؤ بھی ڈیسلینیشن پلانٹس کو ناقابلِ استعمال بنا سکتا ہے، جس سے زرعی شعبہ زمین بوس، صنعتیں مفلوج اور عوام بڑے پیمانے پر بحران صحت کا شکار ہو جائیں گے۔
خطرے کی شدت اس لیے بڑھتی جارہی ہے کہ بوشہر کا ریاکٹر سمندر کے کنارے واقع ہے اور سویلین آبادی پلانٹ کے اتنے قریب کہ کوئی حفاظتی بیریئر تابکاری کو پوری طرح رو نہیں سکتا۔ خلیجی ریاستوں نے پہلے ہی ہنگامی الرٹ جاری کر کے سمندر کے پانی کی نگہداشت اور فوری تابکاری کی نگرانی کے نظام کو تیز کر دیا ہے، مگر بڑھتی ہوئی حملوں کی لہر کے سامنے یہ اقدامات وقتی تحفظ سے آگے نہیں جا سکتے۔ خطے میں امن اور استحکام کے لیے یہ وقت محض ڈپلومیسی یا جنگ بندی کا مطالبہ نہیں بلکہ جوہری تنصیبات کے چاروں جانب بین الاقوامی مانیٹرنگ اور ناقابلِ مزاحمت حفاظتی آڈٹ کا ہے، ورنہ ایک لمحے کی غلطی خلیج کے ساحلی شہروں کو تابکاری کے اندھیرے میں دھکیل دے گی۔