“جمہوریت کے نام پر تباہی کی یہ فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں — کیا اب اگلا منظر ایران کا ہے؟”

رجیم چینج کی سیاست — ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف؟
ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان کہ “اگر ایران کی حکومت اپنے ملک کو دوبارہ عظیم نہیں بنا سکتی، تو تبدیلی کیوں نہ ہو؟” درحقیقت وہی پُرانا اسکرپٹ ہے جسے عراق، لیبیا، شام اور افغانستان میں بار بار آزمایا گیا۔ یہ صرف الفاظ نہیں، بلکہ اس بیانیے کی بازگشت ہے جو مسلم دنیا میں بدامنی، خونریزی اور تباہی کا پیش خیمہ بن چکا ہے۔

“رجیم چینج” — جمہوریت یا مفادات؟
امریکہ ہمیشہ یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ دنیا بھر میں جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے، لیکن جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ:

عراق میں “ہتھیارِ تباہی” کا بہانہ بنا کر حملہ کیا گیا، مگر آج تک وہ ہتھیار نہیں ملے۔

لیبیا کو “آزادی” دی گئی، لیکن قذافی کی حکومت کے بعد ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔

افغانستان میں “القاعدہ” کے نام پر قبضہ کیا گیا، مگر 20 سال بعد امریکہ خود بے دخل ہوا، اور ملک ایک بار پھر طالبان کے پاس چلا گیا۔

اب ایران کے خلاف وہی بیانیہ کھڑا کیا جا رہا ہے:
جوہری پروگرام روکنا ہے، انسانی حقوق بچانے ہیں، عوام کو آزاد کرنا ہے۔ مگر اصل مقصد کچھ اور ہے — مشرق وسطیٰ میں ایک اور خودمختار مسلم ریاست کو غیر مستحکم کرنا، اور اسرائیل کے ارد گرد امریکی مفادات کا حصار مزید مضبوط کرنا۔

ایران — خودمختاری کا نشان یا اگلا ہدف؟
ایران کے عوام کی رائے، ان کا نظامِ حکومت، ان کا آئندہ سیاسی مستقبل — یہ سب فیصلے صرف اور صرف ایرانی عوام کا حق ہیں، نہ کہ امریکہ یا کسی اور طاقت کا۔
جب امریکی یا مغربی حکام “ریجیم چینج” کی بات کرتے ہیں، تو درحقیقت وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ مسلم دنیا کے عوام اپنی تقدیر خود نہیں طے کر سکتے، انہیں ہدایت دی جائے گی، حملے کیے جائیں گے، اور ان کے وسائل پر قبضہ کیا جائے گا — جیسے پہلے ہوتا رہا ہے۔

نیا منظرنامہ — وہی پرانی فلم؟
رجیم چینج کی پالیسی دراصل ایک نیا نام ہے پرانے سامراجی عزائم کا۔ اس بار صرف ہدف بدلا ہے، نیت وہی ہے۔ لیکن کیا مسلم دنیا اب بھی آنکھیں بند رکھے گی؟
یہ وقت ہے کہ امتِ مسلمہ، بالخصوص نوجوان طبقہ، تاریخ سے سبق سیکھے اور عالمی سیاست کے اصل چہرے کو پہچانے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں