“ایران پر تباہ کن حملے کے باوجود ایٹم بم بنانے کی صلاحیت برقرار — عالمی ماہرین کا بڑا انکشاف!”

ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے — امریکا کی یلغار ناکام؟ عالمی ماہرین نے حقیقت کھول دی
حال ہی میں ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی فضائی اور بحری حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر عالمی تجزیہ کاروں نے چونکا دینے والا انکشاف کر دیا ہے:
ایران کی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم نہیں کی جا سکی۔

حملے کی شدت — اعداد و شمار میں:
125 امریکی جنگی طیارے، بحری جہاز، اور آبدوزیں ایران کی 3 مرکزی تنصیبات پر حملے میں شریک تھیں۔

B-2 بمبار طیاروں نے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں حصہ لیا۔

نطنز اور فردو پر گرائے گئے 14 عدد GBU-57 بنکر بسٹر بم — یہ بم زیر زمین جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔

لیکن پھر بھی کیوں ناکافی ثابت ہوئے؟
ماہرین کی آراء:
ایران نے اپنے جوہری پروگرام کے اہم حصے خفیہ مقامات پر منتقل کر دیے تھے۔

سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلا ہے کہ کچھ سرگرمیاں نئی تنصیبات میں جاری ہیں۔

یورینیئم کی افزودگی وقتی طور پر متاثر ہوئی، لیکن تکنیکی انفراسٹرکچر اور مہارت ابھی باقی ہے۔

سوالات جو اب دنیا کے سامنے ہیں:
کیا امریکا کا مقصد محض تاخیر تھا، مکمل تباہی نہیں؟

کیا ایران کی جوہری پھیلاؤ کی حکمت عملی “ڈسپرشن ماڈل” پر مبنی ہے؟

کیا دنیا ایک نئے نیوکلیئر بحران کے دہانے پر ہے؟

ایران کا مؤقف کیا ہے؟
ایرانی حکام نے سرکاری طور پر حملوں کی تفصیل سے تردید یا تصدیق نہیں کی، لیکن عوامی سطح پر ردعمل سخت رہا۔
ایران کے بیانات میں جوہری پروگرام کے تحفظ اور دفاع کی “ریڈ لائن” کا اشارہ دیا گیا ہے، جبکہ جوابی کارروائی کی دھمکیاں بھی سننے میں آئی ہیں۔

عالمی برادری کی خاموشی؟
اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے ابھی تک کوئی مضبوط ردعمل نہیں دیا۔

چین اور روس اس مسئلے پر واضح پوزیشن لے سکتے ہیں، جبکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ انکشاف دنیا کو ایک غلط فہمی سے نکال رہا ہے — کہ صرف میزائل اور بم سے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا ممکن ہے۔
جدید دور کی سٹریٹیجک گہرائی، خفیہ کاری، اور سائنسی مہارت نے جوہری پروگراموں کو تقریباً ناقابلِ تباہ بنا دیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں