ایران کی بڑی جنگ کی تیاری — فوج کو امریکی حملے کے جواب کے لیے مکمل اختیارات مل گئے.

مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی فضا مزید سنگین ہو گئی ہے — ایرانی قیادت نے امریکا کی جانب سے ایٹمی تنصیبات پر کیے گئے حالیہ فضائی حملوں کے بعد اپنی مسلح افواج کو مکمل جنگی اختیارات دے دیے ہیں۔ تجزیہ کار اسے بڑے عسکری تصادم کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔

کیا ہوا؟
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی زیر صدارت ایک ہنگامی سیکیورٹی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ فوج کو امریکی جارحیت کے جواب میں براہ راست، فوری اور مکمل کارروائی کا اختیار ہوگا۔

اب ایران کی مسلح افواج کسی بھی امریکی یا اسرائیلی اقدام کا بغیر مرکزی منظوری کے فوری جواب دے سکتی ہیں۔

یہ فیصلہ کیوں خطرناک ہے؟
یہ جنگی حکمتِ عملی روایتی کمانڈ اینڈ کنٹرول چین کو مختصر کر کے ردِعمل کی رفتار بڑھانے کے لیے کی گئی ہے۔

اس اقدام سے اشتعال انگیزی اور غلط فہمی کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا ہے، کیونکہ زمینی کمانڈرز کسی لمحے میں فیصلہ لے سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اشارہ ہے کہ ایران دفاعی سے زیادہ جارحانہ موڈ میں آ چکا ہے۔

خطے کی صورتِ حال:
خلیج فارس میں امریکی جنگی بیڑے ہائی الرٹ پر ہیں۔

اسرائیل نے بھی اپنے حساس علاقوں میں آئرن ڈوم کو مکمل فعال کر دیا ہے۔

لبنان، شام اور عراق کی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیائیں بھی متحرک ہو چکی ہیں۔

ایران کا پیغام:
“ہم پر حملہ ہوا تو جواب محدود نہیں ہوگا، اور صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہے گا۔”

ایرانی پاسداران انقلاب کی قیادت نے واضح طور پر کہا ہے کہ “ہماری خاموشی کمزوری نہیں، حکمت ہے۔”
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور روس نے جنگی اشتعال روکنے کی اپیل کی ہے۔

چین نے “انتہائی تحمل” کی درخواست کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ “مشرق وسطیٰ میں جنگ، عالمی معیشت کا بحران پیدا کرے گی۔”
ایران کا یہ فیصلہ کہ فوج کو مکمل جنگی اختیار سونپ دیا جائے، اس بات کی علامت ہے کہ ایک بڑی جنگ کا خطرہ اب صرف مفروضہ نہیں، بلکہ حقیقی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ دنیا کو اس بحران کو روکنے کے لیے فوری سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ اگلا مرحلہ کھلی جنگ ہو سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں