“کیا عمران خان واقعی ‘مائنس’ ہو چکے ہیں یا یہ صرف ایک سیاسی دھوکہ ہے؟”

پاکستانی سیاست ایک بار پھر ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں عمران خان کے کردار پر نئی بحث چھڑ چکی ہے۔ یہ بحث اُس وقت شدت اختیار کر گئی جب سابق وزیرِ اعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ایک صحافی کے سوال پر کہا:

“میرا خیال ہے اب وہ مائنس ہو گئے ہیں۔”

یہ بیان محض ایک ذاتی رائے ہو سکتا ہے، لیکن اس کے سیاسی اثرات دور رس ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب یہ بیان کسی ایسے شخص کی طرف سے آئے جو خان خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔

اسی کے فوری بعد تحریکِ انصاف کے اہم رہنما، امین گنڈاپور نے بھی ردِعمل دیا اور کہا:

“مائنس عمران خان اس وقت ہی ہوگا جب ہم زندہ نہیں ہوں گے۔”

یہ جملہ پارٹی کے اندر موجود پختہ وفاداری اور قیادت سے جڑے جذبات کی غمازی کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ:

کیا واقعی عمران خان کو سیاست سے نکالنے کی تیاری ہو رہی ہے؟
سیاسی منظرنامہ: عمران خان اس وقت جیل میں ہیں، اور ان کی پارٹی کئی قانونی و سیاسی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے میں علیمہ خان کا بیان “اندرونی سوچ” کی عکاسی کرتا ہے یا کسی منصوبہ بند بیانیے کا حصہ ہو سکتا ہے۔

پارٹی کا ردِعمل: پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنان اب بھی عمران خان کو “ریڈ لائن” سمجھتے ہیں۔ ان کے بغیر پارٹی کی شناخت نامکمل ہے۔ امین گنڈاپور جیسے رہنماؤں کا بیان اسی نظریے کی عکاسی کرتا ہے۔

عوامی رائے: عمران خان اب بھی ایک بڑے ووٹ بینک کے مالک ہیں۔ ان کے خلاف اقدامات اگر زبردستی کیے گئے تو اس کا نتیجہ سڑکوں پر بھی نکل سکتا ہے۔

طاقتور حلقے: بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ریاستی ادارے “عمران خان فیکٹر” سے تھک چکے ہیں اور ملک میں ایک “نئی سیاسی سیٹ اپ” کی کوشش ہو رہی ہے، جہاں فیصلے بند کمروں میں ہوں نہ کہ جلسوں میں۔

اب یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ عمران خان واقعی “مائنس” ہو چکے ہیں یا یہ صرف ایک وقتی تاثر ہے۔ البتہ اتنا طے ہے کہ علیمہ خان اور امین گنڈاپور کے بیانات ایک نئے سیاسی بیانیے کو جنم دے چکے ہیں، جس کا اثر آئندہ چند ہفتوں میں واضح نظر آ سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں