“ایران پر امریکی وار اور غزہ میں امن کی کوششیں—مشرقِ وسطیٰ ایک نئے بحران کی دہلیز پر؟”

مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال دو محاذوں پر بیک وقت سلگ رہی ہے — ایک طرف امریکہ اور ایران کے درمیان خفیہ و اعلانیہ کشمکش، دوسری طرف غزہ میں جنگ بندی کی غیر یقینی کوششیں۔ دونوں واقعات نہ صرف خطے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں بلکہ عالمی سیاست پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔
1. ایران پر امریکی حملے – سی آئی اے کا انکشاف
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے حالیہ بیان میں کہا ہے:
“اہم ایرانی تنصیبات کو امریکی حملوں میں تباہ کر دیا گیا ہے۔”
یہ ایک بڑا دعویٰ ہے، خاص طور پر اس وقت جب ایران کا جوہری پروگرام پہلے ہی عالمی توجہ کا مرکز ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ:
“ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔”
اس کا مطلب کیا ہے؟
امریکہ ایران کی جوہری صلاحیت کو محدود کرنا چاہتا ہے، مکمل ختم کرنا شاید اس کے لیے فی الحال ممکن نہیں۔
یہ حملے ایک پیغام رسانی بھی ہو سکتے ہیں کہ ایران اگر حد پار کرے گا تو امریکہ سخت ردعمل دے گا۔
ایران ممکنہ طور پر ردعمل دے سکتا ہے، جس سے خطے میں مزید کشیدگی پھیلنے کا خدشہ ہے۔
2. غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں – حماس کا مؤقف
دوسری جانب، غزہ میں جاری جنگ اور انسانی بحران پر ثالثوں نے جنگ بندی کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ لیکن حماس کے مطابق:
“اسرائیل کے ساتھ مذاکرات بدستور تعطل کا شکار ہیں۔”
اس کی اہم نکات:
جنگ بندی کی تمام کوششیں سیاسی ڈیڈلاک کی نذر ہو رہی ہیں۔
اسرائیل اور حماس دونوں ایک دوسرے پر بے اعتمادی کا شکار ہیں۔
عوامی دباؤ اور بین الاقوامی مطالبات کے باوجود، فریقین کسی پائیدار حل پر نہیں پہنچ پا رہے۔
مجموعی منظرنامہ:
یہ دونوں خبریں ایک ہی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں — مشرقِ وسطیٰ کسی بڑے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے:
ایران کی تنصیبات پر حملے، اس کے ردعمل، اور عالمی جوہری معاہدے کا مستقبل۔
غزہ میں جنگ بندی کی ناکامی اور ممکنہ طور پر ایک اور بڑے فوجی آپریشن کا خدشہ۔
مشرقِ وسطیٰ کا توازن ایک بار پھر خطرے میں ہے۔ اگر ایران نے جوابی حملہ کیا یا غزہ میں امن عمل مکمل ناکام ہوا تو خطے میں آگ مزید بھڑک سکتی ہے — اور اس کا اثر صرف عرب دنیا یا اسرائیل تک محدود نہیں رہے گا۔