“ایران کی پوشیدہ ایٹمی تنصیب—کیا افزودہ یورینیئم محفوظ رہا یا جنگ کا اصل ہدف بچ گیا؟”

امریکی حملوں کے باوجود، ایران کے افزودہ یورینیئم کا ایک بڑا سوال ابھی تک جواب طلب ہے:
کیا ایران کی جوہری صلاحیت تباہ ہو چکی، یا اہم تنصیبات حملے سے بچ گئیں؟
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق، ایران میں ایک ایسی خفیہ جوہری تنصیب موجود ہے، جس کا نہ صرف کوئی مصدقہ عالمی ریکارڈ موجود نہیں، بلکہ یہ تنصیب حالیہ حملوں میں بھی مکمل طور پر محفوظ رہی۔
یہ ’خفیہ تنصیب‘ کہاں ہے؟
مقامی و بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق یہ تنصیب کسی پہاڑی علاقے میں زیرِ زمین موجود ہو سکتی ہے، ممکنہ طور پر نطنز یا فردو سے بھی زیادہ محفوظ مقام پر۔
ایران کی اس تنصیب کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ:
اعلیٰ سطح کا افزودہ یورینیئم تیار کرتی ہے (60٪ سے زیادہ)
ڈبل شیلڈڈ اور جدید اینٹی بم کنکریٹ سے بنی ہوئی ہے
ریڈار سے بچنے کی ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے
بین الاقوامی خدشات:
IAEA کی محدود رسائی
ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی (IAEA) کو ان خفیہ تنصیبات تک مکمل رسائی نہیں ملی، جس کی وجہ سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی حملے کی حدود
سی آئی اے اور پینٹاگون کے دعووں کے برعکس، یہ خدشہ موجود ہے کہ حملے صرف ان ہی تنصیبات پر ہوئے جن کا پہلے سے علم تھا۔
ایران کی خاموشی
ایران نے اب تک ان ’خفیہ تنصیبات‘ کے بارے میں نہ کوئی تردید کی ہے، نہ تصدیق — جو سفارتی سطح پر ایک چالاک حکمت عملی سمجھی جا رہی ہے۔
ممکنہ نتائج:
اگر یہ تنصیب واقعی محفوظ رہی ہے تو ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔
اس سے مستقبل میں دوبارہ جوہری سرگرمیوں کی بحالی ممکن ہو سکتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کو مزید کارروائیوں پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
یہ سوال کہ “ایران کی افزودہ یورینیئم کہاں گئی؟” صرف ایک تکنیکی نکتہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کا دھڑکتا سوال ہے۔
اگر واقعی ایران کے پاس ایسی پوشیدہ تنصیبات موجود ہیں، تو موجودہ جنگ محض ایک آغاز ہے — اختتام نہیں۔