مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر: اسرائیل کا ایران کے خلاف جامع فوجی منصوبہ

مشرقِ وسطیٰ کے پرامن ماحول پر ایک بار پھر جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے، جس نے نہ صرف خطے کو بلکہ عالمی برادری کو بھی بے حد فکر مند کر دیا ہے۔ اسرائیل کے وزیرِ دفاع، اسرائیل کاٹز نے حال ہی میں ایک نیا اور جامع فوجی منصوبہ متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد ایران کی میزائل قوت اور جوہری سرگرمیوں کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے۔ اس منصوبے کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ 12 روزہ شدید فضائی جنگ نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

اسرائیل کا جامع “Enforcement Plan”
وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اسرائیلی کابینہ اور فوجی قیادت کو دی گئی ہدایات میں واضح کیا ہے کہ وہ ایک ایسے جامع منصوبے پر کام کر رہے ہیں جو ایران کی بیلسٹک میزائل انڈسٹری کو جڑ سے ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ہر قیمت پر فضائی برتری کو برقرار رکھے گا اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کو کسی بھی سطح پر دوبارہ بحال ہونے سے روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ یہ منصوبہ ایک ایسا فیصلہ کن آپریشن ہوگا جو ایران کی دفاعی اور جوہری صلاحیتوں کو نہایت شدت سے نشانہ بنائے گا، اور اگر ایران نے اپنے میزائل پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی تو اسرائیل اس کا بھرپور جواب دینے سے گریز نہیں کرے گا۔

حالیہ جنگ کی گونج اور خفیہ انکشافات
اسرائیلی وزیر دفاع نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ حالیہ 12 روزہ فضائی جنگ کے دوران اسرائیلی انٹیلی جنس نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو براہِ راست نشانہ بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ تاہم، خامنہ ای وقت پر زیر زمین بنکر میں چلے گئے اور پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ کمانڈرز سے رابطے منقطع کر دیے، جس کی وجہ سے اسرائیل کو یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل نے ایران کے حساس جوہری مراکز، میزائل ساز فیکٹریوں اور سیکیورٹی دفاتر پر حملے کیے جن میں ایران کے متعدد اعلیٰ فوجی اور جوہری سائنسدان ہلاک ہوئے۔ ایران نے بھی اسرائیل کے حملوں کا سخت جواب دیا اور اسرائیلی شہروں پر میزائل داغے جس سے کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

موجودہ صورتحال: ایک عارضی خاموشی یا مستقبل کا آغاز؟
اگرچہ دونوں ممالک نے 25 جون کو ایک غیر رسمی سیز فائر کا اعلان کیا، لیکن دونوں نے اسے ’’فتح‘‘ قرار دیا، اور اس کے بعد بھی کشیدگی برقرار ہے۔ اسرائیل نے کہا کہ اس نے ایرانی دفاعی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، جب کہ ایران نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے سیزفائر کی درخواست کی ہے کیونکہ وہ ان کی طاقت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس وقت حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیزفائر محض ایک عارضی خاموشی ہے، اور دونوں فریق کسی بھی وقت کشیدگی کو بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔

ایران کا سخت ردعمل اور خطے پر اثرات
ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈرز نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ کسی بھی نئی جارحیت کا جواب ’’شدید تر اور فوری‘‘ ہوگا۔ ایران کا عزم ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے نقصان کا بدلہ فوری اور سختی سے چکائے گا۔ اس کشیدگی نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے بڑے تصادم کا خدشہ بڑھا دیا ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل کا یہ منصوبہ عملی جامہ پہنتا ہے تو یہ صرف دو ملکوں کی جنگ نہیں رہے گی بلکہ خطے کی بڑی طاقتیں بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔ اس جنگ کا دائرہ بہت وسیع اور دیرپا ہوگا۔

خطے میں امن کی تلاش اور عالمی منظرنامہ
اس بڑھتے ہوئے بحران نے عالمی سیاسی منظرنامے کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کو اب نہایت حکمت، صبر، اور سیاسی سمجھوتوں کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی غیر دانشمندانہ قدم پورے خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان یہ تنازعہ اب صرف ہتھیاروں کی نہیں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی شدید لڑائی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے بڑے تنازعے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جس میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کا جامع فوجی منصوبہ ایران کی میزائل اور جوہری صلاحیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا جا رہا ہے، جبکہ ایران بھی ہر ممکن طریقے سے اپنی سلامتی اور دفاع کا عزم رکھتا ہے۔ یہ کشیدگی خطے اور عالمی امن کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے، جس کا حل صرف سیاسی حکمت عملی اور سفارتی کوششوں سے ممکن ہے۔ عالمی برادری کا یہ فرض ہے کہ وہ اس خطے میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے تاکہ ایک وسیع جنگ کو ٹالا جا سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں