ایران چند مہینوں میں یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے — اقوام متحدہ کے نگران ادارے کی وارننگ.

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے “بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی” (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل **رافیل گروسی** نے دنیا کو ایک خطرناک پیش رفت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران “چند مہینوں” کے اندر **اعلیٰ سطح کی یورینیم افزودگی** دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کی بحالی پر بات چیت تعطل کا شکار ہے، اور خطے میں سیاسی کشیدگی پہلے ہی بلند سطح پر ہے۔
افزودگی کا مطلب اور خطرہ کیا ہے؟
یورینیم کی افزودگی ایک ایسا عمل ہے جس میں یورینیم کے ایٹمز کو اس حد تک صاف کیا جاتا ہے کہ وہ توانائی پیدا کرنے والے ری ایکٹرز یا ہتھیاروں میں استعمال کیے جا سکیں۔ عام طور پر بجلی پیدا کرنے کے لیے یورینیم کو 3% سے 5% تک افزودہ کیا جاتا ہے، لیکن **90% افزودگی** نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی سطح کہلاتی ہے۔
رافیل گروسی کا کہنا ہے کہ ایران نے حالیہ مہینوں میں اپنی افزودگی کی رفتار تو کم کی ہے، لیکن وہ **ٹیکنیکی صلاحیت، تجربہ اور مشینری کے اعتبار سے پوری طرح تیار ہے** کہ اگر سیاسی فیصلہ ہو جائے تو وہ **اعلیٰ سطح کی افزودگی** بہت جلد شروع کر سکتا ہے۔
گروسی کا انتباہ دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیاں **IAEA کی نگرانی سے دور ہو رہی ہیں**۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران میں ایجنسی کی رسائی محدود ہے، کیمرے ہٹا دیے گئے ہیں، اور **شفافیت میں کمی** سے یہ جاننا مشکل ہو گیا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے ساتھ آگے کیا کر رہا ہے۔
یہ صورتحال امریکہ، اسرائیل، یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ اگر ایران اپنی افزودگی کی سطح دوبارہ بڑھاتا ہے تو اس سے **مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ** شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی کئی بار خبردار کر چکا ہے کہ وہ ایران کو جوہری طاقت نہیں بننے دے گا، اور اس تناظر میں **فوجی کارروائی** کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
موجودہ تناظر: JCPOA کی ناکامی اور سیاسی پیچیدگیاں
2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں (امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس، اور جرمنی) کے درمیان جوہری معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ایران نے افزودگی محدود کی تھی اور IAEA کو مکمل رسائی دی گئی تھی۔ تاہم 2018 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی اختیار کی، جس کے بعد ایران نے بھی **اپنے وعدے آہستہ آہستہ معطل کرنے شروع کر دیے**۔
جو بائیڈن حکومت نے JCPOA کی بحالی کی کوشش کی، مگر یہ بات چیت نتیجہ خیز نہ ہو سکی، اور اب ایران نے کئی یورینیم افزودگی سائٹس پر **جدید سینٹری فیوجز نصب کر لیے ہیں**۔
ایران کا مؤقف
ایران مسلسل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام “پرامن مقاصد” کے لیے ہے اور اسے جوہری ہتھیار بنانے میں دلچسپی نہیں ہے۔ تہران حکومت کا کہنا ہے کہ **امریکہ کی وعدہ خلافی** اور مسلسل پابندیوں نے ایران کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی دفاعی صلاحیت خود بنائے۔
بین الاقوامی ردعمل اور ممکنہ اقدامات
رافیل گروسی کے بیان کے بعد عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران پر دوبارہ دباؤ بڑھنے کا امکان ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین ایران سے شفافیت اور IAEA کے ساتھ مکمل تعاون کی اپیل کر چکے ہیں، جبکہ **اسرائیل** نے ممکنہ طور پر ایران کے خلاف **پیشگی کارروائی** کی تیاریوں کا عندیہ دیا ہے۔
اگر ایران نے واقعی اعلیٰ سطح کی افزودگی دوبارہ شروع کی، تو یہ نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک نازک موڑ ہو گا.