امریکہ: ٹیسلا کی خودکار گاڑی بغیر ڈرائیور کے نئے مالک تک پہنچ گئی.

امریکہ میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلابی قدم اس وقت دیکھا گیا جب ٹیسلا کی مکمل خودکار (Self-Driving) گاڑی نے بغیر کسی انسانی ڈرائیور کے لمبا سفر طے کر کے کامیابی سے اپنے نئے مالک تک رسائی حاصل کی۔ یہ واقعہ کیلیفورنیا سے نیواڈا کے درمیان پیش آیا، جہاں گاڑی نے 300 میل سے زائد کا فاصلہ بغیر کسی انسانی مداخلت کے مکمل کیا۔

یہ گاڑی ٹیسلا کے جدید ترین “Full Self-Driving (FSD) Beta” سافٹ ویئر سے لیس تھی، جو مصنوعی ذہانت، سینسرز، کیمروں، اور ریئل ٹائم ڈیٹا پروسیسنگ کی مدد سے راستے کی شناخت، ٹریفک کی پیروی، لین چینجنگ، یوٹرن، اور پیچیدہ چوراہوں کو خود بخود سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

■ سفر کی تفصیلات:
گاڑی کو ٹیسلا کی ڈیلرشپ سے نئے مالک کے گھر تک پہنچایا گیا۔

پورے سفر کے دوران کسی بھی ڈرائیور نے گاڑی میں موجود ہو کر اسے کنٹرول نہیں کیا۔

گاڑی نے سڑک کے قوانین، ٹریفک سگنلز، پیدل چلنے والوں، اور دیگر گاڑیوں سے فاصلہ رکھ کر انتہائی محتاط انداز میں سفر مکمل کیا۔

GPS اور انٹرنیٹ کی مدد سے راستہ منتخب کیا گیا، جبکہ سافٹ ویئر نے ہر قسم کی صورتحال سے خود کو ایڈجسٹ کیا۔

■ اس پیش رفت کی اہمیت:
ماہرین کے مطابق، یہ واقعہ خودکار ٹرانسپورٹیشن کی صنعت میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں اب صرف تجرباتی مرحلے میں نہیں بلکہ حقیقی دنیا میں مؤثر طور پر کام کر سکتی ہیں۔

■ فوائد:
انسانی غلطیوں سے بچاؤ (حادثات میں کمی)

24/7 ڈرائیونگ کی صلاحیت

لاگت میں کمی (ڈرائیور کی ضرورت نہ ہونا)

ماحولیاتی اثرات میں کمی (زیادہ مؤثر ڈرائیونگ پیٹرن)
موجودہ قوانین ابھی بھی خودکار گاڑیوں کے لیے مکمل طور پر واضح نہیں

سائبر سیکیورٹی کے خطرات (گاڑی کو ہیک کیا جا سکتا ہے)

اخلاقی سوالات (حادثے کی صورت میں ذمہ داری کس پر ہوگی؟)
ٹیسلا کے علاوہ گوگل کی ویمو (Waymo)، ایپل، اور کئی دیگر کمپنیاں بھی خودکار گاڑیوں پر کام کر رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے 5 سے 10 سالوں میں مکمل خودکار ٹرانسپورٹ سروسز عام ہو جائیں گی، جس سے روزمرہ زندگی، معیشت، اور شہری منصوبہ بندی میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں