“جب سی آئی اے نے کہا ’سب کو مار ڈالو‘ — جان کیریاکو کا انکشاف جو امریکی پالیسیوں کا پردہ چاک کر گیا”

2002 کی ایک رات، سی آئی اے کے سابق افسر جان کیریاکو کو جب اسلام آباد روانہ ہونا تھا تو ان کے سینئر نے انہیں مختصر مگر لرزہ خیز ہدایت دی: “سب کو مار ڈالو”۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے کیریاکو کی زندگی، کیریئر اور سوچ کو بدل کر رکھ دیا۔

نائن الیون کے بعد، کیریاکو کو انسداد دہشت گردی کے اس خفیہ یونٹ کا سربراہ بنایا گیا جو دنیا بھر میں القاعدہ کے خلاف کام کر رہا تھا۔ عربی زبان اور مشرق وسطیٰ کی ثقافت سے واقفیت کی بنا پر وہ اس مشن کے لیے سب سے موزوں سمجھے گئے۔

پاکستان مشن اور ابو زبیدہ کی گرفتاری
اسلام آباد میں قیام کے دوران کیریاکو کا سب سے اہم مشن ابو زبیدہ کو گرفتار کرنا تھا، جسے اس وقت القاعدہ کا تیسرا بڑا رہنما سمجھا جا رہا تھا۔ فیصل آباد میں ایک خفیہ کارروائی کے دوران، سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے مل کر ابو زبیدہ کو زخمی حالت میں گرفتار کیا۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ القاعدہ کا رکن ہی نہیں تھا بلکہ صرف ایک سہولت کار تھا۔

تشدد کی خفیہ دنیا
گرفتاری کے بعد ابو زبیدہ پر گوانتانامو بے میں شدید تشدد کیا گیا — واٹر بورڈنگ، دیواروں سے ٹکرانا، اور تابوت جیسے بکسوں میں بند کرنا۔ کیریاکو نے بتایا کہ ان کی ابو زبیدہ سے براہ راست 56 گھنٹے ملاقاتیں ہوئیں جن میں وہ رو پڑا اور خود سے موت کی التجا کرتا رہا۔

امریکی پالیسی پر سوال
سی آئی اے کی طرف سے اختیار کیے گئے تشدد کے طریقوں پر کیریاکو کا ضمیر بیدار ہوا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ سب کچھ امریکی حکومت کی باقاعدہ پالیسی کے تحت، صدر کی منظوری سے ہو رہا تھا۔ 2007 میں انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تین انقلابی سچ بولے:

سی آئی اے قیدیوں پر تشدد کر رہی ہے

یہ سب پالیسی کا حصہ ہے

یہ صدر کی منظوری سے ہو رہا ہے

سچ بولنے کی قیمت
یہ انکشاف ان کے لیے مہنگا ثابت ہوا۔ ان پر جاسوسی ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی، اور 2012 میں 30 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ مگر اس کے بعد انہیں سی آئی اے کے ایک نائب سربراہ کی ای میل ملی جس میں لکھا تھا:
“تم نے وہ قدم اٹھایا جس کی ہم میں ہمت نہ تھی۔”

کیریاکو کی آج کی جدوجہد
آج جان کیریاکو عوامی سطح پر لیکچرز دیتے ہیں اور اس سچ کو عام کر رہے ہیں کہ ”تشدد انصاف کا متبادل نہیں، اور سچ کو کبھی دبا نہیں جا سکتا۔” وہ خود کو ان معصوم افراد سے معافی کا طلب گار کہتے ہیں جنہیں بغیر جرم کے اٹھایا گیا۔

یہ کہانی نہ صرف امریکی انٹیلیجنس کے اندھیرے پہلوؤں کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ ضمیر کی آواز کو دبانا ممکن نہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں