پاکستان میں موبائل چوری کے نیٹ ورک کے تار افغانستان کی سرحد تک جا پہنچے، جہاں سے یہ وارداتیں منظم کی جاتی ہیں۔

پاکستان میں موبائل فونز کی چوری ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے، جو صرف ملک کے بڑے شہروں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا دائرہ کار سرحد پار افغانستان تک پھیل چکا ہے۔ تازہ تحقیقات اور انٹیلی جنس رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ موبائل چوروں کا ایک منظم نیٹ ورک پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہا ہے، جو چوری شدہ فونز کو افغانستان منتقل کر کے وہاں سے غیر قانونی طور پر فروخت کرتا ہے۔

یہ نیٹ ورک انتہائی ماہر اور منظم طریقے سے کام کرتا ہے۔ چوروں کے گروہ پہلے فونز کی چوری کرتے ہیں، پھر انہیں مختلف چھوٹے چھوٹے حلقوں میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ پکڑے جانے کے امکانات کم ہوں۔ اس کے بعد یہ موبائل فونز افغانستان کے سرحدی علاقوں میں مخصوص ٹھکانے پر پہنچائے جاتے ہیں، جہاں سے یہ مارکیٹ میں باآسانی فروخت ہو جاتے ہیں۔ اس پورے عمل میں نہ صرف مقامی چور شامل ہیں بلکہ سرحدی علاقوں میں موجود اسمگلروں کا بھی ہاتھ ہے، جو اس کاروبار کو بڑی حد تک تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

یہ مسئلہ نہ صرف صارفین کے لیے مالی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ اس سے ملکی معیشت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے، کیونکہ غیر قانونی موبائل فونز کی فروخت سے ٹیکس کے نقصانات ہوتے ہیں اور قانونی مارکیٹ متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، چوری شدہ فونز کی شناخت کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے، جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے جرائم کی روک تھام مشکل ہو جاتی ہے۔

حکومت اور پولیس نے اس نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے کئی آپریشنز شروع کیے ہیں، جن میں سرحدی علاقوں پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ تاہم، چونکہ یہ نیٹ ورک بہت وسیع اور پیچیدہ ہے، اس لیے اس کا مکمل خاتمہ ابھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ پولیس نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ موبائل فونز کی خرید و فروخت میں احتیاط کریں اور صرف قابل اعتماد ذرائع سے ہی فون خریدیں۔

یہ مسئلہ نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ خطے کی سلامتی کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ اس طرح کے نیٹ ورک دہشت گردی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں بین الاقوامی تعاون اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ موبائل چوری کے اس وسیع نیٹ ورک کو ختم کیا جا سکے اور عوام کو محفوظ بنایا جا سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں