“جب خاموشی جرم کو طاقت دیتی ہے، تو ہر آواز جو بولے — وہ تحفظ بن جاتی ہے۔”

ثناء یوسف جیسے بے شمار کیسز اس حقیقت کا کڑوا آئینہ ہیں کہ آن لائن ہراسانی اب ایک انفرادی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی المیہ بن چکا ہے۔ وہ لڑکیاں جو تعلیم، خواب، یا سادگی کے ساتھ سوشل میڈیا پر آئیں، ان کے ساتھ نام نہاد ’دوستی‘، بلیک میلنگ، اور ویڈیوز کے ذریعے ذلت آمیز دھمکیاں معمول بن چکی ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ معاشرہ اب بھی “متاثرہ کو الزام” دینے میں زیادہ سرگرم ہے، مجرم کو نہیں۔

❗ سائبر کرائم ونگ کس طرح مدد کر سکتا ہے؟
اگر کوئی لڑکی، خاتون یا بچی آن لائن ہراسانی یا بلیک میلنگ کا شکار ہو رہی ہو، تو FIA سائبر کرائم ونگ اس کی مکمل قانونی معاونت فراہم کرتا ہے:

1. آن لائن شکایت کا طریقہ:
FIA Complaint Portal پر جا کر اپنی شکایت درج کریں۔

فارم میں متاثرہ فرد کی تفصیل، ثبوت (سکرین شاٹس، نمبرز، ویڈیوز) اور بلیک میل کرنے والے کی معلومات درج کریں۔

2. ای میل کے ذریعے رابطہ:
helpdesk@nr3c.gov.pk پر تفصیلات بھیجی جا سکتی ہیں۔

3. ہیلپ لائن اور واٹس ایپ سروس:
FIA کی ہیلپ لائن 1991 یا واٹس ایپ ہیلپ سروس پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے (تازہ نمبر FIA ویب سائٹ سے چیک کریں)۔

4. براہِ راست دفتر جانا:
لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں FIA سائبر کرائم دفاتر موجود ہیں۔

👨‍👩‍👧 والدین کہاں ہیں؟
یہ سوال کڑوا ضرور ہے، مگر ضروری بھی۔
بارہ سے چودہ سال کی بچیاں Snapchat جیسی ایپس پر اپنی تصاویر یا ویڈیوز ’دوستوں‘ کو بھیج رہی ہیں — کیا والدین کو علم ہے؟ کیا موبائل ہاتھ میں دے دینا ہی ذمہ داری پوری کر دی؟

ڈیجیٹل تربیت اب روایتی تربیت سے زیادہ اہم ہے۔ والدین کو چاہیے:

بچوں کے موبائل میں parental controls لگائیں

ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نظر رکھیں

ہفتہ وار یا روزانہ ان سے کھل کر بات کریں

“آن لائن دوست” یا “چیٹنگ” جیسے الفاظ پر فوری توجہ دیں

بچوں کو یہ سکھائیں کہ اپنی ذاتی تصاویر کبھی شیئر نہ کریں، چاہے سامنے والا کوئی بھی ہو

🔐 بچیوں کو خود بھی جاننا ہوگا:
کوئی لڑکا اگر محبت، دوستی یا دھمکی کے ذریعے نازیبا مواد مانگے تو یہ جرم ہے

ایسی صورتحال میں خاموشی نہیں، فوری شکایت کریں

کوئی ویڈیو یا تصویر اگر لیک ہو جائے، تو بھی قانون آپ کے ساتھ ہے — شرمندگی نہیں، ہمت دکھائیں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں