“ہم حماس کا مکمل خاتمہ کر کے اپنے تمام یرغمالیوں کو ہر قیمت پر واپس لائیں گے” — نیتن یاہو کا جنگی عزم

“ہم اپنے تمام یرغمالیوں کو ہر حال میں رہا کروائیں گے اور حماس کو ختم کر دیں گے، اس کا نام و نشان تک مٹا دیں گے، ہم انھیں مکمل طور پر تباہ کریں گے اور جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے۔”
— وزیراعظم اسرائیل، بنیامین نیتن یاہو
(ماخذ: بی بی سی، یروشلم پوسٹ، ٹائمز آف اسرائیل)

تمہید: جنگی عزم اور اعلانِ محاذ
وزیراعظم اسرائیل نیتن یاہو کا یہ سخت اور ناقابلِ لچک بیان، نہ صرف موجودہ اسرائیل-حماس تنازعے کی شدت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی کھلی دلیل ہے کہ اسرائیلی حکومت اس بار صرف وقتی ردعمل نہیں دے رہی بلکہ ایک فیصلہ کن جنگ کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے۔ نیتن یاہو کے مطابق، یرغمالیوں کی واپسی ایک قومی ترجیح ہے اور حماس کی موجودگی، اسرائیل کی بقا کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔

بیان کا تناظر اور پس منظر
یہ بیان ایک ہنگامی سلامتی کابینہ کے اجلاس کے بعد سامنے آیا، جو غزہ میں جاری آپریشن اور اسرائیلی شہریوں کی بازیابی کے حوالے سے بلایا گیا تھا۔ اجلاس کے بعد نیتن یاہو نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی اس جنگ میں کوئی درمیانی راہ نہیں۔ یہ یا تو مکمل فتح ہو گی یا مکمل تباہی — اور اسرائیل مکمل فتح کے لیے پُرعزم ہے۔

نیتن یاہو کے اس بیان میں ایک طرف اسرائیلی عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حکومت ان کے تحفظ اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی، تو دوسری طرف حماس کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اب کوئی محفوظ پناہ گاہ باقی نہیں رہی۔

بیان کا لُبِّ لباب: مکمل صفایا، مکمل اختیار
وزیراعظم نے نہایت سخت اور ناقابلِ تردید الفاظ میں کہا کہ:

“ہم حماس کا نام و نشان تک مٹا دیں گے، انھیں مکمل طور پر تباہ کریں گے اور جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے۔”

یہ الفاظ صرف جنگی حکمتِ عملی نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ کا عندیہ بھی ہیں۔ نیتن یاہو کا ماننا ہے کہ جب تک حماس موجود ہے، خطے میں امن ممکن نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ صرف عسکری نہیں، بلکہ معاشی، سیاسی اور معلوماتی سطح پر بھی حماس کا گھیراؤ کیا جائے گا تاکہ وہ دوبارہ منظم نہ ہو سکے۔

عالمی منظرنامے پر اثرات
نیتن یاہو کے بیانات نے بین الاقوامی برادری کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ ممالک ہیں جو اسرائیل کے حقِ دفاع کو تسلیم کرتے ہیں، جب کہ دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ جیسے ادارے ہیں جو اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی بھی عسکری کارروائی میں عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔

عرب دنیا میں اس بیان کو اشتعال انگیز اور خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ کئی ممالک نے اسے فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی دھمکی سے تعبیر کیا ہے۔ ادھر امریکہ اور یورپی یونین نے ایک جانب اسرائیل کے دفاع کے حق کو تسلیم کیا ہے، مگر ساتھ ہی انسانی جانوں کے ضیاع پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔

داخلی سیاست اور عوامی ردعمل
اسرائیل کے اندر یہ بیان بڑی حد تک مثبت طور پر لیا جا رہا ہے، خاص طور پر ان خاندانوں کی جانب سے جن کے پیارے ابھی تک حماس کے قبضے میں یرغمال ہیں۔ لیکن کچھ اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صرف طاقت کے بل پر مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا ممکن نہیں، اور یہ بیان آنے والے دنوں میں سفارتی تنہائی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

نتیجہ: الفاظ جو آگ بن سکتے ہیں
نیتن یاہو کا یہ اعلان بظاہر حوصلہ افزائی اور عسکری ولولہ پیدا کرنے کی کوشش ہے، لیکن اس کے مضمرات کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ ایک طرف یہ بیان اسرائیل کی عسکری حکمتِ عملی کو واضح کرتا ہے، تو دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی، زیادہ خونریز جنگ کے امکانات کو بھی بڑھاتا ہے۔ یہ وقت بین الاقوامی برادری کے لیے بھی آزمائش کا ہے — کیا وہ امن کے لیے مؤثر کردار ادا کرے گی یا صرف تماشائی بنی رہے گی؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں