“پاکستان نے ایران کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا، جبکہ بھارت اپنی غیر متوازن پالیسی سے ایران جیسا قابلِ اعتماد دوست بھی کھو بیٹھا۔”

پاکستانی وزیراعظم نے حالیہ دور میں اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانے کا خصوصی دورہ کیا، جہاں انہوں نے ایرانی عوام کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا، اور غزہ میں اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی۔ یہ دورہ صرف رسمی ملاقات نہیں تھی بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اصول، انسانی حقوق اور مسلم اُمہ سے وابستگی کی واضح جھلک تھی۔
یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب ایران کو نہ صرف غزہ میں جاری صورتحال پر عالمی ردِعمل کی ضرورت تھی، بلکہ سفارتی یکجہتی کی بھی۔ پاکستان نے اس موقع پر کھل کر ایران کے ساتھ کھڑا ہونے کا پیغام دیا، جو نہ صرف اسلامی دنیا کے لیے اہم ہے بلکہ جغرافیائی سیاست میں ایک متوازن اور باوقار موقف کی علامت بھی۔
دوسری طرف بھارت: ایران سے دوری
اسی صورتحال پر بھارتی پروفیسر اشوک سوائن نے اپنے ٹویٹ میں انتہائی اہم نکتہ اٹھایا:
“بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی غیر اصولی خارجہ پالیسی نے بھارت کو مغربی ایشیا میں اپنے واحد دیرینہ دوست ایران سے بھی محروم کر دیا ہے۔”
یہ بات صرف تجزیہ نہیں بلکہ حقیقت بن چکی ہے۔ بھارت نے حالیہ برسوں میں مغرب، خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کے ساتھ یکطرفہ جھکاؤ اختیار کیا ہے، جس کا نقصان اسے ایران جیسے اہم جغرافیائی و معاشی اتحادی کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی صورت میں اٹھانا پڑا۔
چاہ بہار بندرگاہ جیسے اسٹریٹیجک منصوبے، توانائی کے معاہدے، اور خطے میں مشترکہ سیکیورٹی مفادات — سب کچھ پسِ پشت چلا گیا، کیونکہ بھارت نے ایران کو نظرانداز کر کے واشنگٹن اور تل ابیب کی خوشنودی کو ترجیح دی۔
پاکستان کا موقف: اصولوں پر مبنی اور ہم آہنگ
پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی ہے، اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی خارجہ پالیسی میں اخلاقی اور سفارتی ہم آہنگی دکھائی ہے۔
یہی فرق بھارت اور پاکستان کے بیانیے میں نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے آیا ہے:
بھارت کی خاموشی = مفاداتی مجبوری
پاکستان کی سفارتی سرگرمی = اصولی اور انسانی موقف
آج کا سفارتی منظرنامہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ وہ ممالک جو صرف مفاد پرستی پر مبنی پالیسی اپناتے ہیں، وہ سفارتی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ بھارت کی مثال اس وقت سب سے بڑی گواہی ہے، جہاں ایران جیسا “دوست” بھی اب فاصلے پر ہے۔
جبکہ پاکستان کا سفارتی انداز، چاہے ایران ہو، ترکی، یا عرب دنیا — اصولی مؤقف اور بروقت یکجہتی پر مبنی ہے، جو سفارتی ساکھ کو مضبوط بنانے کا راستہ ہے۔