اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے غزہ شہر پر قبضے کی منظوری دے دی، حماس کا سخت ردعمل.

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری کشیدگی ایک نئے اور خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے ایک غیر معمولی اجلاس میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت غزہ شہر پر مکمل قبضہ کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ پہلے ہی کئی ماہ سے شدید بمباری، تباہی اور انسانی المیے کا شکار ہے۔
ذرائع کے مطابق اس منصوبے میں زمینی فوج کی پیش قدمی، شہر کے بنیادی ڈھانچے پر کنٹرول اور حماس کے مسلح نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ہدف شامل ہے۔ اسرائیلی حکام کا مؤقف ہے کہ یہ کارروائی “ملکی سلامتی” اور “دہشت گردی کے خاتمے” کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شہری آبادی مزید خطرے میں آ جائے گی اور انسانی بحران مزید گہرا ہو گا۔
دوسری جانب، حماس نے اس پیش رفت کو نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ یرغمالیوں کے لیے بھی خطرناک قرار دیا ہے۔ حماس کے ترجمان نے الزام لگایا کہ نیتن یاہو ذاتی سیاسی مفادات اور اقتدار کو طول دینے کی خاطر اس منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں، اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے یرغمالیوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ان کے بقول، اسرائیلی وزیراعظم “سیاسی بقا” کے لیے خطے کو آگ میں جھونک رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف غزہ میں جنگ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کرے گا بلکہ خطے کی سلامتی اور عالمی امن کے لیے بھی بڑے خطرات پیدا کرے گا۔ اگر یہ کارروائی عمل میں آتی ہے تو ہزاروں شہری نقل مکانی پر مجبور ہو سکتے ہیں، بنیادی سہولیات جیسے پانی، بجلی اور طبی امداد مزید ناپید ہو سکتی ہیں، اور ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔
عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں، پہلے ہی غزہ میں انسانی صورتحال پر شدید تشویش ظاہر کر چکی ہیں۔ لیکن اسرائیلی کابینہ کی تازہ منظوری نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں سفارتی کوششوں پر مزید دباؤ ہو گا اور تنازع مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔