غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری کے دوران الجزیرہ کے پانچ بہادر صحافی اپنی جان گنوا بیٹھے۔

غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت ایک بار پھر اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس نے نہ صرف معصوم شہریوں بلکہ سچائی کے علمبرداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ الجزیرہ کے پانچ صحافی—جو اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر محاذِ جنگ کی خبر دنیا تک پہنچا رہے تھے—ایک ہی دن میں شہید کر دیے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے کیمرے اور قلم جنگی زون میں انسانی درد، بربادی اور مزاحمت کی زندہ تصویریں پیش کر رہے تھے۔
یہ قتل کوئی اتفاقی سانحہ نہیں بلکہ ایک خطرناک پیغام ہے کہ صحافت کو خاموش کرنے کی کوششیں کس حد تک جا سکتی ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق صحافیوں کو جنگ کے دوران خصوصی تحفظ حاصل ہوتا ہے، مگر غزہ میں یہ قوانین بار بار پامال کیے جا رہے ہیں۔ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز اور دیگر صحافتی اداروں نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے “انسانی حقوق اور آزادیٔ صحافت پر براہِ راست حملہ” قرار دیا ہے۔
ان صحافیوں کی کہانیاں صرف ناموں کی فہرست نہیں بلکہ قربانی کی داستانیں ہیں—ایک فوٹو جرنلسٹ جو ملبے میں دبے بچوں کی تصاویر دنیا کو دکھا رہا تھا، ایک رپورٹر جو بمباری کے باوجود براہِ راست کوریج کر رہا تھا، اور ایک فیلڈ پروڈیوسر جو مقامی گواہوں کی آوازیں ریکارڈ کر رہا تھا۔ ان کی زندگیوں کا چراغ بجھا دیا گیا، مگر ان کے کام کی روشنی ابھی بھی زندہ ہے۔
یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سچ کو دبانے کے لیے طاقت استعمال کی جا سکتی ہے، مگر حقیقت کی گونج کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آج عالمی برادری پر ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اس جرم کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کرائے بلکہ اس بات کو یقینی بنائے کہ صحافی محفوظ ماحول میں اپنا فرض انجام دے سکیں۔ ورنہ ہم سب خاموش تماشائی بن کر ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں سچ سنانا جرم بن جائے گا۔