عمرکوٹ سمیت سندھ کے کئی اضلاع میں زرعی پانی کی شدید قلت، کاشتکار پریشان

عمرکوٹ، میرپورخاص، تھرپارکر، سانگھڑ اور دیگر اضلاع سمیت سندھ کے وسیع زرعی علاقوں کو اس وقت شدید پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ نہروں میں پانی کی آمد انتہائی کم ہو چکی ہے، جس کے باعث ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں سوکھنے لگی ہیں۔ کاشتکار روزانہ کی بنیاد پر نہروں کے کنارے پانی کے انتظار میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، مگر پانی نہیں آ رہا۔

عمرکوٹ میں واقع نارا کینال، جسے علاقے کی زرعی زندگی کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے، میں پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے۔ مقامی زمینداروں کے مطابق ٹیل کے علاقوں تک پانی پہنچنا تقریباً بند ہو چکا ہے، اور جو تھوڑا بہت پانی آ بھی رہا ہے، وہ بااثر افراد کے کھالوں میں موڑ لیا جاتا ہے، جس سے چھوٹے اور متوسط کاشتکار سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

کاشتکاروں کا احتجاج:
علاقے بھر میں کسانوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر نہروں میں پانی کی فراہمی بحال نہ کی گئی تو کپاس، مرچ، سبزیاں اور دیگر اہم فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گی، جس سے نہ صرف دیہی معیشت کو نقصان پہنچے گا بلکہ مقامی سطح پر خوراک کی قلت کا خدشہ بھی پیدا ہو جائے گا۔

محکمہ آبپاشی کی خاموشی:
محکمہ آبپاشی کی جانب سے تاحال کوئی مؤثر حکمتِ عملی یا عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ افسران صرف کاغذی رپورٹوں میں پانی کی تقسیم کو “منصفانہ” قرار دے رہے ہیں، جبکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کا بحران:
ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کی یہ قلت وقتی نہیں بلکہ ایک مستقل بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ موسم کی شدت، بارشوں کی کمی، دریاؤں میں پانی کی آمد میں کمی، اور وفاق و صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر تنازعات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

عوامی مطالبہ:
کسان تنظیمیں اور مقامی نمائندے حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوری طور پر نہری نظام کی مانیٹرنگ کے لیے آزاد کمیٹی بنائی جائے، پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جائے، اور ان علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر پانی فراہم کیا جائے جو کئی ہفتوں سے مکمل طور پر خشک پڑے ہیں۔
زرعی سندھ پانی کے بحران کے باعث شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ اگر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ چند مہینوں میں غذائی قلت اور معاشی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں