“غزہ میں گولیاں رک گئیں، مگر رمضان جیسے بچوں کی سانسیں اب بھی موت سے لڑ رہی ہیں۔”

غزہ کے علاقے مواسی میں قائم الاقصیٰ یونیورسٹی کی چھت پر اُمِ محمد المصری اپنے نازک جسم والے سات ماہ کے بیٹے “رمضان” کو گود میں لیے بیٹھی ہیں۔ رمضان تیز بخار سے تڑپ رہا ہے، اس کی جلد پر چھالے ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ پھیلتے جا رہے ہیں۔ گرمی ناقابلِ برداشت ہے، پانی آلودہ ہے، اور وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہیں کہ اپنے بیٹے کی تکلیف کو کم کر سکیں، اناطولیہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق۔

“ہم بیت حانون سے بمباری سے بچنے کے لیے یہاں آئے تھے،” وہ آہستہ لہجے میں کہتی ہیں، ان کی نظریں بیٹے کے چہرے پر جمی ہوئی ہیں۔ “اب میرا بچہ میری گود میں مر رہا ہے، صرف اس لیے کہ پینے کا پانی گندا ہے اور دوا موجود نہیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے خون میں بیکٹیریا کی شدید انفیکشن ہے۔ انہوں نے اینٹی بایوٹکس دی تھیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا ہے۔”

رمضان ان بے شمار بچوں میں سے ایک ہے جو غزہ میں جنگ، بھوک اور بیماری کے جان لیوا امتزاج کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے خاندان کو محض روٹی اور “دُقّہ” (گندم اور مصالحوں کا ایک سادہ آمیزہ) پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ دودھ، ڈائپرز اور صاف پانی مکمل طور پر نایاب ہو چکے ہیں۔
“میرا شوہر صبح سویرے کھانے کی تلاش میں نکلتا ہے،” اُمِ محمد بتاتی ہیں۔ “وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر واپس آتا ہے، اور اکثر خالی ہاتھ ہوتا ہے۔”

غزہ کے اسپتال مکمل طور پر دباؤ میں آ چکے ہیں۔ دوا اور تشخیصی آلات نایاب ہو چکے ہیں، اسپتال کے راہداریوں میں مریض فرش پر لیٹے ہوتے ہیں، اور تھکے ماندہ ڈاکٹر بغیر ضروری طبی آلات کے زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں