“جب شہرت کرنسی بن جائے تو ہر پوسٹ کی قیمت لاکھوں میں تولی جاتی ہے!”

“جب شہرت کرنسی بن جائے: ڈکی بھائی، بیٹنگ ایپس اور ڈیجیٹل دنیا کا نیا چہرہ”
تازہ ترین تفتیشی رپورٹ کے مطابق، معروف یوٹیوبر “ڈکی بھائی” بیٹنگ ایپس کی پروموشن کے عوض فی مہم 10 سے 20 ہزار امریکی ڈالر وصول کرتے تھے۔ یہ انکشاف نہ صرف سوشل میڈیا انڈسٹری کی چمکتی دنیا کے پس پردہ چھپی حقیقتوں کو سامنے لاتا ہے، بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ڈیجیٹل شہرت آج کے دور میں کتنی قیمتی، اور بعض اوقات خطرناک، بن چکی ہے۔
ڈکی بھائی، جن کا اصل نام سمیع الحسن ہے، پاکستان کے سوشل میڈیا کے بڑے ناموں میں شمار ہوتے ہیں۔ یوٹیوب، انسٹاگرام اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان کے لاکھوں فالوورز ہیں، اور ان کی ویڈیوز باقاعدگی سے وائرل ہوتی ہیں۔ اسی عوامی اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے مختلف کمپنیز، خاص طور پر آن لائن بیٹنگ ایپس، انہیں اپنی مارکیٹنگ مہمات کے لیے استعمال کرتی رہیں۔
بیٹنگ ایپس کی دنیا: پیسہ، پروموشن اور پراپیگنڈہ
بیٹنگ ایپس، جو بظاہر گیمنگ یا فینٹیسی اسپورٹس کے نام پر کام کر رہی ہوتی ہیں، دراصل جوا بازی کے ڈیجیٹل روپ سمجھی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ان کی قانونی حیثیت غیر واضح ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں نوجوان ان ایپس کے ذریعے پیسے ہار رہے ہیں۔ انفلوئنسرز جب ان ایپس کی تشہیر کرتے ہیں، تو وہ نادان یا کم عمر فالوورز کو اس خطرناک راستے کی طرف راغب کرتے ہیں – وہ بھی بغیر کسی انتباہ یا ذمہ داری کے۔
قانونی اور اخلاقی پہلو
تفتیشی ایجنسیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈکی بھائی جیسے انفلوئنسرز نے بیٹنگ ایپس کی پروموشن سے نہ صرف خطیر رقم کمائی، بلکہ ان پلیٹ فارمز کو جائز اور مقبول ظاہر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ جانتے تھے کہ جن ایپس کی وہ پروموشن کر رہے ہیں، وہ درحقیقت قانونی گرے ایریا میں آتی ہیں؟ اور اگر جانتے تھے، تو کیا صرف پیسے کی خاطر اپنی فین بیس کو خطرے میں ڈالنا درست تھا؟
اس وقت قانون نافذ کرنے والے ادارے ان تمام سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی چھان بین کر رہے ہیں جنہوں نے بیٹنگ یا جوا بازی سے متعلق کسی بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو پروموٹ کیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی انفلوئنسر نے غیر قانونی سرگرمی کی پروموشن کی ہے، تو ان پر مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔
ڈیجیٹل اثرورسوخ: نعمت یا زحمت؟
یہ واقعہ ہمیں ایک اہم سوال کی طرف لے جاتا ہے: کیا سوشل میڈیا کی طاقت صرف تفریح، کامیابی اور پیسوں تک محدود ہے، یا اس کے ساتھ کچھ اخلاقی اور سماجی ذمہ داریاں بھی جڑی ہوئی ہیں؟ جب لاکھوں لوگ آپ کی بات پر یقین کرتے ہیں، تو آپ کی ہر پوسٹ، ہر ویڈیو اور ہر پروموشن صرف ایک ذاتی انتخاب نہیں رہتی، بلکہ ایک اجتماعی اثر رکھتی ہے۔
ڈکی بھائی کا معاملہ صرف ایک یوٹیوبر کی کمائی تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک بڑے اور پیچیدہ نظام کی عکاسی کرتا ہے جہاں ڈیجیٹل شہرت، پیسہ، قانون اور اخلاقیات ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس تفتیش کا دائرہ کہاں تک جاتا ہے، اور کیا ہم بطور معاشرہ سوشل میڈیا کی طاقت کو زیادہ سنجیدگی سے لینا شروع کرتے ہیں یا نہیں۔