جمہوری آوازوں کو خاموش کرنے کی خونریز کوشش — کوئٹہ میں بی این پی کے جلسے کے باہر دھماکہ، کئی جانیں ضائع

کوئٹہ میں دہشتگردی کا وار: بی این پی جلسے کے باہر دھماکہ، 12 جاں بحق، 31 زخمی

جمہوریت پر حملہ یا سیکیورٹی کی ناکامی؟

کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے جلسے کے باہر ہونے والے زور دار دھماکے نے بلوچستان میں ایک بار پھر خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس دھماکے میں کم از کم 12 افراد جاں بحق جبکہ 31 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔


دھماکہ کب اور کہاں ہوا؟

یہ دھماکہ بی این پی کے ایک سیاسی جلسے کے آغاز سے کچھ دیر قبل اس وقت ہوا جب کارکنان اور شہری بڑی تعداد میں جلسہ گاہ کے باہر جمع تھے۔ واقعہ اتنا شدید تھا کہ قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور جائے وقوعہ پر افرا تفری پھیل گئی۔


ریسکیو اور سیکیورٹی اداروں کی فوری کارروائی

دھماکے کے بعد سیکیورٹی اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ زخمیوں کو فوری طور پر سول اسپتال اور دیگر قریبی طبی مراکز منتقل کیا گیا۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔


بی این پی قیادت کا ردِعمل

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ صرف ایک پارٹی پر نہیں، بلکہ بلوچستان کے عوام کی سیاسی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔
پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا:

“یہ بزدلانہ حملہ ہماری جدوجہد کو روک نہیں سکتا۔ ہم پُرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور دہشتگردی کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔”


سیاسی و انسانی حقوق کے حلقوں کی مذمت

مقامی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں نے اس واقعے کو آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیوں پر کھلا حملہ قرار دیا ہے۔
سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ جلسے جیسے حساس موقع پر سیکیورٹی میں کوتاہی کیوں برتی گئی؟


بلوچستان پھر نشانے پر؟

یہ واقعہ ایک بار پھر یاد دہانی ہے کہ بلوچستان نہ صرف سیاسی محرومی کا شکار ہے بلکہ سیکیورٹی کے لحاظ سے بھی مسلسل غیر مستحکم ہے۔
ایسے واقعات نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہیں بلکہ جمہوریت، امن اور ریاستی رٹ کے لیے بھی سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں