چند کمانڈرز گئے، مگر انقلاب کا کارواں رکا نہیں — ایران کا انتقام اب نظریہ بن چکا ہے!”

اسرائیلی حملے کے بعد ایران کی حکمتِ عملی اور ردعمل
اسرائیل کے حالیہ حملے میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے “چند سینئر کمانڈرز” کی ہلاکت یقیناً ایک بڑا نقصان ہے، مگر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا پہلا ردعمل پیغام میں ایک اہم نکتہ سامنے آیا:

“ان کے جانشین فوراً عہدے سنبھال لیں گے”

یہ بیان صرف استقامت کا اظہار نہیں، بلکہ ایک منظم اور مربوط دفاعی نظام کی علامت ہے، جس کا مطلب ہے:

ایران کے پاس متبادل قیادت کی تیاری پہلے سے موجود ہے

ادارے افراد پر نہیں بلکہ نظریے اور تربیت پر چل رہے ہیں

ایران “شخصیات کے نقصان” کو اپنی حکمتِ عملی میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا

⚔️ ایرانی قیادت کا موقف: انتقام اور مزاحمت
ایرانی صدر اور رہبر اعلیٰ دونوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ:

اسرائیلی جارحیت کا جواب ضرور دیا جائے گا

یہ حملے خاموشی سے نہیں برداشت کیے جائیں گے

انتقام جذباتی نہیں بلکہ اسٹریٹجک ہو گا

یہاں دو پہلو اہم ہیں:

1. انتقام کا اعلان صرف داخلی تسلی نہیں
بلکہ یہ:

علاقائی اتحادیوں کو متحرک کرنے کا اشارہ ہے (حزب اللہ، حشد الشعبی، حوثی)

اسرائیل کو مستقل دباؤ میں رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے

ایران کے “تدریجی انتقام” (strategic patience + calculated retaliation) ماڈل کا تسلسل ہے

2. یہ پیغام دنیا کے لیے بھی ہے
ایران یہ واضح کر رہا ہے کہ:

وہ خوف زدہ یا منتشر نہیں ہوا

اس کی ریاستی مشینری ابھی بھی فعال ہے

امریکہ، اسرائیل اور مغرب کو سخت ردعمل کے لیے تیار رہنا ہوگا

💥 ممکنہ منظرنامہ: ایران کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟
محدود لیکن مؤثر فوجی کارروائیاں — جیسے اسرائیلی تنصیبات یا مفادات پر راکٹ حملے

سائبر جنگ، تیل کی ترسیل میں خلل، یا علاقائی نیٹ ورکس کو متحرک کرنا

حزب اللہ یا حماس کے ذریعے پراکسی جنگ کا نیا مرحلہ

✅ خلاصہ: افراد شہید ہوتے ہیں، تحریکیں نہیں
ایرانی قیادت کا پیغام صرف اسرائیل نہیں، دنیا کو بھی یہ باور کرانا ہے کہ:

“ہم چند افراد کے مرنے سے نہ کمزور ہوتے ہیں، نہ مفلوج — ہم نظریہ ہیں، جو اگلی صف میں کھڑا ہونے والوں سے زندہ رہتا ہے”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں