ایک جرمن ڈاکٹر، جس نے اپنی پوری زندگی پاکستان میں کوڑھ کے مریضوں کے لیے وقف کر دی — یہ ہیں ڈاکٹر رتھ فاؤ۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ: پاکستان میں انسانیت کی خدمت کا ایک سنہری باب
آج پاکستان میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آٹھویں برسی عقیدت اور احترام سے منائی جا رہی ہے۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ تو اپنی شہرت کے لیے اور نہ ہی کسی ذاتی فائدے کے لیے کام کیا، بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی خدمت تھا۔ وہ پاکستان میں “کوڑھ کی دشمن” اور “مدر ٹریسا” کے نام سے مشہور ہوئیں، کیونکہ انہوں نے اپنے 55 سال سے زائد کا وقت پاکستان کے دور دراز علاقوں میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج اور بحالی کے لیے وقف کر دیا۔

ابتدائی زندگی اور پاکستان سے تعلق
ڈاکٹر رتھ فاؤ 9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لائپزگ میں پیدا ہوئیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ان کا گھر تباہ ہوا اور ان کے خاندان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ کے بعد انہوں نے طب کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک مسیحی مذہبی تنظیم ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری میں شمولیت اختیار کی۔

1960 کی دہائی میں وہ ایک مشن کے تحت بھارت آئیں، لیکن ویزا کے مسائل اور کچھ غیر متوقع حالات کے باعث وہ کراچی پہنچ گئیں۔ کراچی میں انہوں نے کوڑھ کے مریضوں کو انتہائی بدتر حالت میں دیکھا — یہ منظر ان کی زندگی کا رخ بدل دینے والا تھا۔ وہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں رہ کر اس مرض کے خاتمے کے لیے کام کریں گی۔

خدمت کا آغاز اور کامیابیاں
1963 میں انہوں نے کراچی کے کوڑھ کے اسپتال، مارٹن ڈاؤ میموریل لیپرسی سینٹر (بعد میں ڈاکٹر رتھ فاؤ لیپرسی سینٹر) میں باقاعدہ کام شروع کیا۔ ان کے قیام کے وقت پاکستان میں کوڑھ کو لاعلاج اور قابلِ نفرت مرض سمجھا جاتا تھا۔ مریضوں کو معاشرے سے الگ کر دیا جاتا، یہاں تک کہ گھر والے بھی ان سے دور رہتے۔

ڈاکٹر رتھ فاؤ نے:

ملک بھر میں 157 مراکز قائم کیے جہاں کوڑھ اور جلدی امراض کا علاج مفت فراہم کیا جاتا۔

ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تربیت کا نظام بنایا۔

موبائل میڈیکل ٹیمیں بنائیں جو دور افتادہ دیہات تک پہنچتیں۔

معاشرے میں آگاہی مہمات چلائیں تاکہ کوڑھ کے مریضوں کو تنہا نہ کیا جائے۔

1996 میں عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے پاکستان کو ایشیا کا پہلا ملک قرار دیا جہاں کوڑھ پر مؤثر کنٹرول حاصل کیا گیا۔ یہ کامیابی ڈاکٹر رتھ فاؤ کی انتھک محنت اور عزم کا نتیجہ تھی۔

عالمی اعتراف اور اعزازات
ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان اور دنیا بھر سے کئی بڑے اعزازات ملے، جن میں شامل ہیں:

ہلالِ پاکستان

ہلالِ امتیاز

جرمنی کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ

بین الاقوامی اداروں کی طرف سے درجنوں میڈلز اور سرٹیفیکیٹس

شخصیت اور طرزِ زندگی
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی سادگی اور عاجزی ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ وہ بڑے عہدوں اور شہرت سے دور رہیں۔ کراچی کے نواح میں ایک سادہ سی رہائش میں زندگی گزاری اور اپنی آخری سانس تک مریضوں کے درمیان رہیں۔ وہ اکثر کہتی تھیں:

“یہ میرا کام نہیں، میرا فرض ہے۔”

وفات اور وراثت
ڈاکٹر رتھ فاؤ 10 اگست 2017 کو 88 سال کی عمر میں کراچی میں وفات پا گئیں۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا — یہ اعزاز کسی غیر مسلم شخصیت کو شاذ و نادر ہی دیا جاتا ہے۔ ان کی آخری رسومات میں فوجی گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور صدرِ پاکستان، آرمی چیف اور اعلیٰ حکام نے ان کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

آج ان کے قائم کردہ مراکز اب بھی غریب اور مستحق مریضوں کی خدمت کر رہے ہیں، اور ان کا مشن پاکستان کے نوجوان ڈاکٹروں اور رضاکاروں کے ذریعے جاری ہے۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی زندگی اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ قومیت یا مذہب نہیں، بلکہ انسانیت سب سے بڑا رشتہ ہے۔ انہوں نے جرمنی کی آرام دہ زندگی چھوڑ کر پاکستان کی گلیوں، کچی آبادیوں اور دور دراز دیہات میں اپنی زندگی کا مقصد تلاش کیا، اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں