گوادر میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جھلک: بلوچ مچھیرے کی بوسیدہ کشتی اور پیوند زدہ جال کی کہانی

گوادر میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی بڑی آوازوں کے درمیان ایک معمولی بلوچ مچھیرے کی بوسیدہ کشتی اور پیوند زدہ جال کی خاموش کہانی چھپی ہوئی ہے، جو اس علاقے میں ترقی اور سرمایہ کاری کے حقیقی اثرات کو واضح کرتی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کو عالمی سطح پر تجارتی اور اقتصادی مرکز بنانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، مگر اس ترقی کا فائدہ براہ راست مقامی عوام تک پہنچنے میں کمیاب رہا ہے۔

جب ہم گوادر کے سرخ کیکڑوں کی بات کرتے ہیں، تو یہ وہ مچھلی ہے جو اس علاقے کی معیشت کا ایک اہم حصہ سمجھی جاتی ہے، مگر اس کاروبار کے فوائد کا بیشتر حصہ مقامی مچھیرے نہیں بلکہ بڑے تجارتی اداروں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔ اس تمام تر سرمایہ کاری اور اقتصادی سرگرمیوں کے درمیان مقامی لوگوں کی حالت زار اور مشکلات اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں۔

بلوچ مچھیرے جن کی روزمرہ کی زندگی چپو کے بغیر بوسیدہ کشتیوں اور پرانے جالوں سے جڑی ہے، گوادر میں ہونے والی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے جھرمٹ میں چھپ جاتے ہیں۔ یہ مچھیرے کبھی بھی اس ترقی کے حقدار نہیں بن پاتے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان کی زندگیوں میں صرف غربت اور عدم سہولتیں ہیں، اور گوادر کے نئے اقتصادی راستوں کے سامنے ان کی آواز کو اکثر دبایا جاتا ہے۔

گوادر کے سرخ کیکڑوں کا تجارت میں اہم کردار ہے، مگر اس کا فائدہ مقامی مچھیرے کہاں لے جا پاتے ہیں؟ ان کی زندگی میں آج بھی وہی مسائل ہیں، جنہیں کئی سالوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ کیا انہیں بغاوت کرنی چاہیے؟ اگر ان کی حالت یہ ہے تو پھر وہ اور کس سے انصاف کی امید رکھیں؟ گوادر کی ترقی کے دعوے تو بلند ہیں، مگر اس ترقی کا فائدہ مقامی عوام تک کب پہنچے گا؟

اگر مقامی لوگوں کو اس ترقی کا حصہ نہیں بنایا گیا تو گوادر میں سرمایہ کاری کی اصل کامیابی کیا ہوگی؟ کیا صرف سرکاری ٹھیکے اور بڑے کاروباری اداروں کا فائدہ ہو گا؟ یا پھر مقامی مچھیرے، کسان، اور دوسرے شہری بھی اس کا حصہ بن پائیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں ملے گا، لیکن اس وقت تک، گوادر کے سرخ کیکڑوں اور اس کی ساحلی زندگی کی آواز بلند ہونی چاہیے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں