ایک بلند جذبے کا اعلان، مگر حقیقت میں سفارتی معاہدوں اور عالمی قوانین کی دیواریں اسے کہیں آگے جانے نہیں دیں گی۔

بلاول بھٹو کا یہ نعرہ دراصل اُن تاریخی تنازعات اور 1960 کے انڈس واٹرز ٹریٹی میں طے شدہ اصولوں کی یاد دہانی ہے، جس کے تحت دریائے سندھ کے کل چھ شاخوں—بیاس، راوی، ستلج، چناب، جبّہ اور سندھ—کی تقسیم اور استعمال کا تعین ہوا تھا۔ اِس معاہدے میں بھارت کو تین دریاؤں (بیاس، راوی، ستلج) کے استعمال کے حقوق دیے گئے جبکہ پاکستان کو چناب، سندھ اور جبّہ پر کنٹرول ملا۔ بلاول کا کہنا ہے کہ اگر بھارت یہ تقسیم نہ مانے تو پاکستان “ایک اور جنگ” لڑ کر یہ تمام دریائیں اپنے قبضے میں لے لے گا۔ یہ الفاظ بظاہر عسکری جارحیت کی دھمکی لگتے ہیں، مگر حقیقت میں عالمی برادری، ورلڈ بینک کے ثالثی کردار اور اقوامِ متحدہ کے آبی حقوق کے اصول ایسے کسی محاذ آرائی کو سیاسی طور پر دشوار اور عملی طور پر ناممکن بنا دیتے ہیں۔ مزید برآں، دریاؤں کی فطرت اور استعمال پیچیدہ تکنیکی، ماحولیاتی اور اقتصادی پہلوؤں کا مجموعہ ہے، جسے جنگی جھڑپوں سے حل کرنا ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی قانون کے تقاضوں کے باعث انتہائی مسائل سے دوچار ہو گا۔ اس طرح کے جذباتی نعرے عوامی حوصلہ بڑھانے کے لیے کارگر ہو سکتے ہیں، مگر پانی کے اس سرمائے کو حقیقی معنوں میں محفوظ اور منصفانہ بنانے کے لیے سفارتی اور قانونی راستے ہی اکلوتے ثابت ہوں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں